اماں کو مرے ہوئے ابھی چالیس دن بھی نہ ہوئے تھے کہ ابا نے چھپ کر

Story Or Poetry


پانچ بھائیوں کی اکلوتی بیوی

میرا نام روبی ہے۔ میری عمر 50 سال ہے۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی۔ اماں ابا بہت امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اماں کی پسند کی شادی تھی۔ جبکہ ابا اماں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن چونکہ ابا اماں کے تیا کے بیٹے تھے۔ تب ہی نانا نے اماں کی شادی اپنے بھائی کے گھر کردی۔ ابا کو بھی دادا ابا نے منا لیا۔ ابا بھی شادی نہیں کرنا چاہتے تھے وہ کسی اور سے محبت کرتے تھے۔انہوں نے دادا حبا کو بہت سمجھانے کی کوشش کی۔ مگر دادا ابا کا کہنا تھا کہ جہاں وہ کہیں گے وہاں ہی شادی ہوگی۔ مگر دادا ابا کی سختی پر ان کو ماننا پڑا۔ اماں دو بہنیں تھیں۔ ابا اکلوتے بیٹے تھے۔ اماں کی شادی جس وقت ہوئی اس وقت ابا اماں کو بالکل پسند نہیں کرتے۔ تھے۔
ماں کی شادی کے بعد نانا نانی کا ایکار ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا اورخالاں نیم پاگل ہوگئی۔ وہ کسی سے نہیں ملتی۔ تھی۔ ہمیشہ تنہا رہتی تھیں۔ کسی سے زیادہ بات نہیں کرتی تھیں۔ اماں اکثر خالہ سے مل آتی تھیں لیکن وہ کبھی ہمارے گھر نہیں آتی تھیں۔ ابا اماں کو ناپسند کرتے تھے تب ہی وہ اماں پر ظلم کرتے ہیں۔
ان کو مارتے پیٹتے ان سے گھر کے کام تک لیتے لیکن میری پیدائش کے بعد ابا کچھ بہتر ہو گئے تھے اب اماں سے پیار سے بات کرتے تھے اماں بھی خوش رہنے لگی تھی اماں ہر وقت سونے کے زیورات پہن کر رکھتی عبا نے اماں کو ہر آسائش مہیا کی دادی ہمیشہ کہتی تھی کہ نئی نولی دلہنیں سجی سمری ہی اچھی لگتی ہے۔ میرے بعد گھر کا ماحول اچھا ہو گیا تھا۔ اماں ہمیشہ کہتی تھی کہ میرے قدم ان کی زندگی کے لیے بہت اچھے ثابت ہوئے۔ ہیں۔ اماں نے کبھی بھی مجھے ابا کے خلاف نہیں کیا۔ تھا۔ وہ ہمیشہ کہتی تھی کہ جو کچھ بھی ہوا وہ ہم میاں بیوی کا معاملہ تھا۔ لیکن ان کی عزت میرا فرض ہے۔ میں نے اماں جیسا جذبہ اور ہمت کسی کی نہیں دیکھی تھی۔
اماں نے بہت سی تکلیفوں کے بعد بھی کبھی عبا سے بدتمیزی سے بات نہیں کی۔ تھی۔ ابا نے اماں کو ایک ملازمہ رکھ دی جو دن بھر اماں کا کام کرتی، وہ کچھ ادھیڑ عمر تھی، بہت عرصہ اماں کے ساتھ کام کرتی رہی۔ مگر پھر وہ بیمار رہنے لگی۔ اماں اس کو کہتے ہیں کہ اب تم گھر پر آرام کرلیا کرو۔ اگر تمہاری کوئی بیٹی ہے تو اسے گھر لے آؤ وہ کام کر لیا کریں گی۔مگر ملازمہ کہتی کہ وہ جوان ہے، میں اسے کام پر نہیں لے کر آتی۔ لیکن ایک روز اس بوڑھی عورت کی جگہ اس کی بیٹی کام پر آئی۔ لیکن اس نے گھونگھٹ نکالا ہوا تھا۔ اماں نے کہا کہ تم گھونٹ اٹھا سکتی ہو۔ یہاں کوئی نہیں ہوتا۔ لیکن وہ ہمیشہ یہی کہتی کہ میں گھونگھٹ نہیں اٹھا سکتی۔ امی نے سختی سے منع کیا ہے۔
ملازمہ ہمارے گھر کام کرنے لگی۔ ابا کے سارے کام بھی وہی کرتی تھیں۔ اس کی آواز بہت خوبصورت تھی۔ سفید رنگت اس پر بہت ججتی تھی۔ ملازمین اماں پر اندھا بھروسہ بنا لیا تھا۔ اماں ہر وقت اس ملازمہ کے ساتھ باتوں میں لگی رہتی۔ وہ ناجاں نے اپنے کون کون سے دکھ سناتی۔ مجھے وہ ملازمہ ایک آنکھ نبھاتی تھی۔ میں اماں سے اکثر کہتی کہ مجھے یہ عورت ٹھیک نہیں لگتی مگر اماں ایک ہی بات کہتی کہ تم ہیں بڑوں کی باتوں میں پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے ابا بھی اب ملازمہ کے ساتھ کافی ہنسی مذاق کرتے، مجھے ابا کا یہ رویہ بالکل پسند نہ آتا۔ میں اکثر اماں سے کہتی کہ ابا ملازمہ کے ساتھ بہت زیادہ ہنسی مذاق کرتے ہیں۔
ان کا ملازم آپ کے ساتھ اتنا ہنسی مذاق کرنا بہتر نہیں ہے۔ مگر اماں خاموش رہتی۔ اکثر میں ملازمہ کو ٹوک دیا کرتی اور بولتی کہ اپنی حد میں رہا کرو۔ تم ایک ملازمہ ہو ملازمہ کی طرح رہا کرو۔ ابا کو دیکھتے ہی وہ آنسو بہانے لگتی۔ ابا ہمیشہ مجھے ڈانٹ دیتے ہیں۔ اور اماں سے کہتے ہیں کہ اس کو کچھ تمیز سکھاؤ۔ اماں بھی مجھ سے ناراض رہنے لگی۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ میں اس ملازمہ کو گھر سے نکلوا کر رہوں گی۔ مگر شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اکثر اب اماں کی غیر موجودگی میں ملازمہ ابہ کے کمرے میں جاتی اور کئی کئی گھنٹے بعد جب ملازمہ کمرے سے نکلتی تو پوری کانپ رہی ہوتی تھی اور نہ جانے اپنی چادر کے نیچے کیا چھپا لیتی۔ایک روز تجسس کے بارے میں ملازمہ کے ابا کے کمرے میں جاتے ہی خود بھی ان کے پیچھے چل پڑی لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ جب میں نے دروازے کو دھکا لگایا تو دروازہ اندر سے بند تھا۔ اب باقی کھڑکیاں بہت اوپر تھیں جو میری پہنچ سے دور تھیں تب ہی میں اندر کا منظر نہیں دیکھ سکی، مگر اندر سے عجیب وغریب آواز۔پر میرا تجسس مزید بڑھنے لگا۔ اندر سے کچھ کاغذات ہلانے کی آوازیں آرہی تھی جب کہ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ابا کمرے میں نہیں ہے۔
 ایک روز شام کے وقت اماں جب باہر سے لوٹیں تو کافی پریشان تھیں گھر پر نہ تو ابا موجود تھے اور ملازمہ تو شام کی جا چکی تھی۔ میں نے اماں سے پوچھا کہ اماں کیا ہوا ہے اتنی پریشان کیوں ہے؟ مگر اماں خاموش نہیں اور آنسو بہاتے کمرے میں چلی گئی۔ مجھے کافی حیرانی ہوئی کہ صبح تو اماں بالکل ٹھیک تھی۔ آخر ایسا کیا ہوا ہے کہ اماں کی یہ حالت ہوگئی۔ کچھ دیر بعد ابا بھی گھر آئے لیکن ابا کافی خوش لگ رہے تھے۔ اب آتے ہی کمرے میں چلے گئے۔ لیکن اماں کمرے کا دروازہ بند کرچکی تھی۔ ابا نے مجھ سے اماں کی طبیعت کے بارے میں پوچھا تو میں نے انہیں دوپہر کا واقعہ بتا دیا۔ اب بھابی کافی پریشان ہوئے۔وہ دوبارہ سے اماں کے کمرے کے دروازے کو کھٹکھٹانے لگے۔ میں اور ابا کافی پریشان تھے۔ امّا نے آج تک کبھی اس طرح نہیں کیا۔ تھا۔ کافی بار دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد بھی جب اماں نے دروازہ نہیں کھولا تو ابا گھس۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !