میں پچیس سے اوپر کی ہو گئی تھی لیکن ابھی تک میرا ایک بھی رشتہ نہیں آیا تھا ۔۔۔
میرے ابا اور اماں بہت ہنسی خوشی رہتے تھے۔ میرے ابا کی بہت اچھی نوکری تھی اور ہمارا گزرا اچھی طرح ہو جاتا تھا۔ا با اور اماں کی خوب بنتی تھی اور بہت کم ہی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ ہمارے گھر میں لڑائی جھگڑا ہو۔ میں نے ہمیشہ ایک گھر میں ایک پرسکون ماحول دیکھا تھا اور میں نے بچپن سے ہی اپنے والدین کو ایک اچھا والدین اور اچھا انسان پایا۔ ہمارے معاشرے میں کئی لوگ تو اچھے والدین ہوتے ہیں، مگر اچھے انسان نہیں۔ اور کئی اچھے انسان ہوتے ہیں مگر اچھے والے دین نہیں۔
میرے معاملے میں یہ دونوں باتیں ٹھیک تھیں، میرے ابا اور اماں نے مجھے اچھے سے پالا پوسا تھا۔ البتہ ان دونوں کی ہی خواہش تھی کہ ان کے ہاں اولاد نری نہ ہو۔ مگر جو قدرت کو منظور تھا وہی ہونا تھا۔ میری پیدائش پر خوشیاں تو منائی گئیں مگر اس طرح نہیں جس طرح کی ان کی ان کی توقعات تھیں۔
پپو نے بھی مجھے خوب لاٹ پیار دیا۔ ایک شاید وہیں تھی جن کو بھتیجا اور بھتیجی کا فرق نہیں تھا۔ انہوں نے مجھے بالکل ایسے ہی اپنایا جیسے شاید وہ اپنے بھتیجے کو اپناتی۔ ابا اور اماں زیادہ تو اچھے مزاج میں رہتے مگر کبھی کسی کے جوان سال بیٹے کو دیکھتے تو ان کے دل میں بھی ایک خواہش اٹھ مجھے محسوس ہوتی تھی کہ وہ بیٹے کے خواہاں تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کا نام بھی سوچ رکھا تھا۔ شاہد اور پھر میری پیدائش پر شاہد کو شاہدہ کر دیا گیا تھا۔ ابا میرا نام شاہدہ کس نے رکھا تھا ؟۔ میں نے نادانستگی میں ابا کو پوچھا تھا۔ تمھاری اماں اور ابا نے رکھا تھا ، اللہ کے منہ سے بھی بے دھیانی سے نکلا۔ مگر شاہدہ یہیں کیوں رکھا۔ میں نے پھر پوچھا۔ وہ ایک دم بولی اور پھر دم بخود ہو کر اپنے الفاظ پر غور کرنے لگے تھے۔ ان کی اپنی ہی آواز ان کے کانوں میں پڑی۔ تو وہ خواہشات کے سمندر میں غوطہ زن ہوگئے۔ تھے۔ میں نے دیکھا۔ ابا ایک ہی جانب غیر مرید جگہ دیکھتے رہے تھے۔ بک ہوگئے۔ خدا معلوم کس جگہ؟ جس وجہ سے مگر ان کی توجہ بہت دکی تھی۔ میں نے ان کو کئی آوازیں دی مگر جیسے وہ سختے کی عالم میں ہوں۔ اور ان کی حسیات بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ ابا میں نے آگے جا کر جھنجھوڑنے کی کوشش کی وہ ایک دم سے بڑبڑا سا گئے تھے مگر ساتھ ہی انہوں نے اپنی یہ حالت چھپانے کی بھرپور اداکاری بھی کی تھی۔ مجھے ایک ایک لمحہ یاد پڑھتا تھا کہ میں نے بچپن میں ایسے ہی کئی واقعات اپنی آنکھوں میں قید کر رکھے تھے۔ میری تعلیمی سرگرمیاں شروع ہوئیں اور میں تعلیم کے میدان میں بھی بہت ہونہار تھی۔ میں تعلیم کے معاملے میں بہت جلدی سیکھنے والی لڑکی تھی۔ میرے سامنے جو چیز بتا دی جاتی تھی میرا دماغ اس پر سوچنے لگ جاتا تھا ۔ میں اس چیز کو مکمل طور پر دریافت نہ کر لوں جب تک میں سکھ کا سانس نہ لیتی تھی لیے میری معلومات اور علم باقی بچوں سے زیادہ ہوتا تھا۔ ۔ اُس جب مجھے پہلے پہلے پھولوں کا پتہ چلا ہماری بچوں کی کتاب میں تمام پھلوں کے نام اور رنگ میں نے یاد کر لیے تھے۔ پھر میں نے مزید پھلوں کے نام دوسری ایک کتاب سے پڑھے اور پھر میں نے اپنی معلومات اپنی عمر کے تمام بچوں سے زیادہ حاصل کر لی۔ تھیں۔ میری سیکھنے کی لگن دیدنی تھی۔ ہماری کلاس میں میری اس خوبی سے چند لڑکوں کو بہت زیادہ جلن محسوس ہونے لگی۔ بُک کے ساتھ ساتھ جب میں پہلی، دوسری اور تیسری جماعت میں آگئی۔ میں کلاس میں موجود لڑکوں سے بھی زیادہ نمبر حاصل کرتی۔ تھیں۔ بک کے ساتھ ساتھ جماعت در جماعت میں یہ سفر عبور کرتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ مجھ میں بلا کی خود اعتمادی آ چکی تھی۔ اب میں کسی بھی موضوع پر کسی سے بھی خوب بحث و مباحثہ کر سکتی تھی۔ میں نے اسکول کے بزم ادب میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ میرے ان تمام کامیابیوں کو دیکھ کر بہت سے بچے متاثر تھے۔ مگر چند پچھلی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے لڑکے ہمیشہ مجھے تنگ کرنے کے لیے آوازیں قصّہ کرتے تھے۔
وہ بلا کے نالائق اور ڈھیٹ تھے۔ ان کا تعلیم میں زیادہ دلچسپی نظر نہیں آتی تھی۔ ۔ دن ہماری ٹیچر باہر گئی تو وہ مجھے سامنے کھڑا کر گئی۔ تھی۔ کہ میں کلاس کو کنٹرول کروں۔ اُس کے ساتھ مجھے ہدایات تھی کہ میں جو بچہ بھی کلاس میں نصب و ضبط کی خلاف ورزی کرے۔ اس کا نام بھی بورڈ پر لکھ دوں۔ ٹیچر کا جانا تھا کہ پچھلی کرسیوں پر بیٹھے بچے اپنی جگہ سے اٹھ گئے اور وہ بندروں کی آوازیں کسنے لگے۔؟ میں نے ڈانٹ کر ان کو بٹھانا چاہا مگر وہ نہیں مانے۔ میں نے بڑھ کر ایک لڑکی کو تھپڑ مارا اور اسے بیٹھنے کو کہا۔ یہ ہاتھ سنبھال کر رکھو برتن دھونے کے کام آئیں گے۔ اس نے اس انداز سے طنز کیا۔ مجھے بہت برا لگا تھا۔ کیوں لڑکیاں سے؟