سلطان محمود غزنوی کی زندگی کا تعارف - محمود غزنوی کی فتوحات کا اثر

Story Or Poetry


محمود غزنوی کی شہرت کا راز - محمود غزنوی کی ثقافتی خدمات کی اہمیت

سلطان محمود غزنوی کی زندگی کا تعارف


رقبے کے اعتبار سے ہندوستان ایک بہت بڑا ملک تھا۔ اور یہاں کے ہندو حکمرانوں نے صدیوں سے ایسے قلعے تعمیر کر رکھے تھے جو ناقابل تسخیر تھے۔ سلطان محمود غزنوی نے شمالی وسطی ہندوستان کے تو تمام قلعوں کو فتح کر لیا تھا۔ آخری اور و تقريباً بڑا حملہ سلطان محمود غزنوی نے 1024ء کو سومنات پر کیا۔ سومنات کا قلعہ نہایت مضبوط اور مستحکم تھا۔

اس کے تین طرف دریا اور ایک جانب گہری خندق تھی۔ اس قلعے کو فتح کرنا انتہائی دشوار تھا۔ اس کے اطراف میں راجپوتوں کی ستائیس ریاستیں تھیں ؟ جو سب کی سب سومنات کی محافظ تھیں ۔ سلطان محمود غزنوی کی فوجیں ملتان کے ستے سومنات پر حملہ حم آور : ہوئیں۔ وہ اپنے لشکر میں تین ہزار بیس ہزار بارہ دری اونٹوں کا اضافہ کر کے مجاہدین اور غزنی سے نکلا اور پندرہ رمضان کوملتان پہنچ گیا۔ وہ گرم و خشک صحراؤں کو روندتا ہوا اجمیر پہنچا اور وہاں چند دن قیام کرنے کے بعد آگے روانہ ہو گیا۔راستے میں اس نے کئی قلعے فتح کیے اور گھومتا ہوا سومنات جا پہنچا۔ یہ ساحل کاٹھیا وار پر ایک بار ونفق مقام تھا۔ شہر کے وسط میں ایک عظیم الشان مندر تھا، جس کی چوٹیاں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں اور دریا کا پانی اس کی دیواروں سے ٹکرا رہا تھا۔ اسلامی لشکر کے قریب پہنچتے ہیہزاروں پجاری قلعے کی فصیل (قلعے کی بلند و بالا دیوار ) پر آکر کھڑے ہو گئے اور پکار پکار کر کہنے لگے : ”ہمارا معبود اس لیے تمھیں یہاں لایا ہے کہ سب کو ایک دم ہلاک کر دے تم نے جس طرح ہندوستان کے بتوں کے سر اور پاؤں توڑے ہیں اسی طرح تمہارے سر اور پاؤں توڑے جائیں گے۔“ سلطان نے ان کی طعن و تشنیع کا کوئی خیال نہ کیا اور فوجوں کو پڑاؤ کا حکم حکم دے. کم دے دیا۔ دو سے روز صبح ہوتے ہی لشکر اسلام نے فصیل کے محافظوں پر تیروں کی بارشبرسا دی۔ ہندو سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد زخمی ہوئی تو انھوں نے فصیل خالی کر دی اور سومنات کے بت کے سامنے جا کر گرے، گڑ گڑا کر رونے لگے اور اپنے معبود سے مدد مانگنے لگے۔ ادھر مسلمانوں نے فصیل خالی دیکھی تو سیڑھیاں لگا کر فصیل پر چڑھ گئے اور مندر کے درو دیوار اللہ اکبر" کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھے ۔ یہ منظر دیکھ کر ہندو سپاہیوں کو غیرت آئی اور تلواریں سونت کرمقابلے پر آگئے۔ شام تک دست بدست لڑائی ہوتی رہی اور اندھیرا چھانے پر دونوں واپس فوجیں اپنے اپنے مقام پرتیسرے روز مسلمانوں نے پوری قوت سے حملہ کیا مگر اطراف کے راجاؤں کی فوجوں نے ان کو آگے نہ بڑھنے دیا۔ بڑا سخت معرکہ ہوا مگر جنگ کا فیصلہ نہ ہو سکا اور شام ہو گئی۔ اب ہندوؤں کی تعداد بہت بڑھ گئی تھی۔ چوتھے روز انھوں نے قلعے سے نکل کر اسلامی لشکر پر حملہ کر دیا اور مسلمانوں کو گھیرے میں لینے کی کوشش کی لیکن سلطان محمود غزنوی کی جنگی تدبیروں سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ جنگ اپنے عروج پر تھی ، ہندو سر دھڑ کی بازی لگا رہے تھے۔ پجاری اشلوک اور منتر پڑھ پڑھ کر مسلمانوں کو للکار رہے تھے۔ ایک دم انھوں نے متحد ہو کر مسلمانوں پر اتنا شدید حملہ کیا کہ مسلمانوں کے قدم ڈگمگا گئے ۔ سلطان نے اس کے جواب میں فوج کے ایک حصے کو علیحدہ کر کےان کے مقابل کر دیا، دو اطراف جنگ شروع ہو گئی۔ اسی اثنا میں بھیم دیو راجہ اپنی تازہ دم فوج کے ساتھ آن پہنچا اور ہندوؤں کا غلبہ بڑھ گیا۔ سلطان نے دیکھا کہ ہندوؤں کی فوج میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جب کہ سلطان کا اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں تھا چنانچہ اس نے ایک دھواں دار تقریر کی، اس تقریر نے لشکر کی رگوں میں جذبہ جہاد دوڑا دیا اور چند ہی لمحات میں اسلامی لشکرکے کے مجاہدین شیروں کی طرح پھر کر جھپٹے اور پلک جھپکتے ہی انھوں نے ہندوؤں کی لاشوں کے انبار لگا دیے۔ بھیم دیو را حجاب کے شکر کے پانچ . چھ ہزارسپاہی ایک ہی حملے میں زمین پر گر کر تڑپنے لگے اور اسلام کے شیروں نے دوسری مرتبہ پھر حملہ کیا تو دشمن کو ٹھہرنا دشوار ہو گیا۔ بھیم دیو راجہ سپاہیوں کو بھاگتے دیکھ کر خود بھی بھاگ گیا۔

 ہندو لشکر جو قلعے کو بچانے کے لیے لڑ رہا تھا، راجاؤں کا یہ حال دیکھ کر گھبرا گیا اور دریا کی طرف دروازوں سے نکل کر بھاگنے لگا۔ مسلمانوں نے بھاگتے ہوئے ہندوؤں کا تعاقب کیا اور اس کی کثیر تعداد کو دریا میں ڈبو ڈبو کر جہنم واصل کیا۔ مکمل فتح کے بعد سلطان محمود غزنوی مجاہدین کی ایک جماعت کو لے کر قلعہ میں داخل ہوا، عمارت کو دیکھتا بھالتا وہ اس حصے میںجا پہنچا جس کی چھت 56 ستونوں پر کھڑی تھی اور اس کے اندرسومنات کا بت نصب تھا۔ سلطان نے پتھر کے پانچ گز لمبے ہندوؤں کے اس جھوٹے خدا کو توڑنا چاہا تو پجاریوں نے ہاتھ باندھ کر التجا کی کہ وہ اس کو نہ توڑے اور اس کے بدلے میں ہم سے جتنی چاہے دولت اور ہیرے جواہرات ے کے لیکن سلطان کی غیرت ایمانی نے یہ گوارا نہ کیا۔ یہ پیش کش قبول نہ کی اور یہ کہہ کر کہ " میں محمود بت فروش نہیں بت شکن کہلانا پسند کرتا ہوں“ زور کی ضرب لگائی اور پتھر سے بنے سومنات کے بت اور ہندوؤں کے جھوٹے خدا کو پاش پاش کر دیا۔ اس طرح سومنات کا قلعہ فتح ہو گیا۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !