تابوت سکینہ سے کیا مراد ہے - ہیکل سلیمانی کسے کہتے ہیں
بسم الله الرحمن الرحیم
اگر تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسرائیل کو اسلامی ممالک سے اپنا وجود تسلیم کروانے کی ایک وجہ تو اپنے ناجائز وجود کو بالآخر مسلم ممالک میں جائز حیثیت دلا کر مسلمانوں سے معاشی فوائد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ آنے والے وقت کی پیش بندی بھی ہے، جس کا ذکر قرآن شریف میں اور تورات میں موجود ہے، دوسری طرف مخفی طور پر اس تابوت سکینہ کی تلاش بھی ہے، جس کے ذریعے سے یہودی اپنی کھوئی ہوئی طاقت دوبارہ حاصل کر کے دنیا بھر میں اپنا تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں۔ تابوت سکینہ کیا ہے؟ اور اس میں کیا کیا چیزیں تھیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے بارے میں مسلمانوں کی نئی نسل ناواقف ہے جو کہ تمام مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ بائبل کے مطابق اس میں حضرت یوسف کا جسد مبارک اور بائبل ہی کی بعض روایات کی رو سے ہڈیاں اور کپڑے تھے اور اسے حضرت موسی مصر سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ قصص الانبیاء میں ہے کہ اس متبرک صندوق میں تورات کا اصل نسخہ حضرت موسی و ہارون کے عصاء و پیرہن اور من کا مرتبان محفوظ تھے اس تابوت کے بارہ میں اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد گرامی ہے
سورة البقرة : 248اور انہیں ان کے نبی نے کہا کہ اس (طالوت) کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس صندوق ( تابوت) آئے گا اس میں تمہارے رب کی طرف سے سکینت (ایک تسلی) ہے اور آل موسیٰ و آل ہارون نے جو کچھ چھوڑا تھا اس میں سے باقی ماندہ چیزیں ہیں۔ اسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔ بے شک اس میں تمہارے لیے یقیناً ایک نشانی ہے، اگرتم مومن ہو۔
اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ صندوق اللہ تعالی کی طرف سے طالوت کے بادشاہ مقرر ہونے کی نشانی تھا۔ اللہ تعالی کی طرف سے ایک تسلی تھی۔ اس میں موسیٰ و بارون کی آل کے ترکہ کی باقی ماندہ اشیاء تھیں۔ حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کے دنیا میں تشریف لانے کے بعد اللہ نے انہیں : انہیں شمشاد نامی درخت کی مضبوط لکڑی سے بنا ہوا اور سونے کا کام کیا ہوا 3 گز لمبا اور 3 گز چوڑا ایک انوکھا صندوق عطا فرمایا جو کہ منتقل ہوتا ہوا حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا۔ حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کو جب صندوق ملا تو اُس میں تمام انبیائے کرام علیہ السلام اور اُن کے مکانات کی تصویریں تھیں سید الانبیا ( حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے مقدس مکان کی تصویر ایک سرخ یاقوت (یعنی لال قیمتی پتھر) میں تھی۔ اس تصویر میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نماز کی حالت میں تھے جبکہ آس پاس صحابہ کرام موجود تھے۔ یہ تصویریں قدرتی تھیں۔ انسان کی بنائی ہوئی نہ تھیں۔ جب حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو یہ صندوق ملا تو آپ اُس میں اپنا خاص سامان رکھنے لگے۔ اس کے علاوہ صندوق میں ، توریت شریف کی تختیوں کے ٹکڑے، جنتی لاٹھی، حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا لباس اور حضرت سید نا ہارون علیہ السلام کا عمامہ اور ان کی لاٹھی حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی اور بنی اسرائیل پر نازل ہونے والا وہ برتن بھی تھا، جس میں آسمانوں سے من و سلویٰ اترا کرتا تھا۔
حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام جنگ میں اس صندوق کو آگے رکھتے تھے، اس سے بنی اسرائیل کو سکون نصیب ہوتا تھا بنی اسرائیل کو جب کوئی مشکل پیش آتی تو وہ اس صندوق کو سامنے رکھ کر دُعا کرتے تھے دُشمنوں کے مقابلے میں اس کی برکت سے فتح پاتے تھے، جب آپس میں اختلاف ہوتا تو صندوق سے فیصلہ کرواتے، صندوق سے فیصلے کی آواز آتی تھی، بلائیں اور آفتیں صندوق کی برکت سے مل جاتی تھیں۔ اسرائیلی تابوت سکینہ کو اپنے قبلہ کے طور پر بھی استعمال کرتے تھے۔ تاریخ کی کتابوں کے مطابق حضرت داؤد علیہ السلام نے تابوت سکینہ کے تحفظ کے لئے ایک مضبوط عمارت تعمیر کرنے کا ف فیصلہ کیا۔ یہ یہ عمارت حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں مکمل ہوئی اور اسے ہیکل سلیمانی کا نام دیا گیا۔ جب بنی اسرائیل اللہ کی بہت زیادہ نافرمانی کرنے لگے تو ان پر یہ غضب ہوا کہ قوم عمالقہ کے بہت بڑے لشکر نے حملہ کر کے اُن کی بستیاں تباہ کر ڈالیں اور یہ انوکھا صندوق بھی اُٹھا لے گئے۔ اس کے بعد قوم عمالقہ نے صندوق کو گندی جگہ رکھ کر بے ادبی کی، جس کے نتیجے میں وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہو گئے اور اُن کی 5 بستیاں ہلاک ہو گئیں،
انہیں یقین ہو گیا کہ یہ سب مقدس صندوق کی بے ادبی کا نتیجہ ہے، چنانچہ اُنہوں نے صندوق ایک بیل گاڑی پر رکھ کر بنی اسرائیل کی بستیوں کی طرف چھوڑ دیا۔ وہ صندوق چار فرشتوں کی نگرانی میں اُس وقت کے نبی حضرت سیدنا شمویل علیہ السلام تک پہنچا، یوں بنی اسرائیل کو دوبارہ یہ عظیم نعمت حاصل ہو گئی۔ اس واقعے کے بعد بنی اسرائیل نے ہیکل سلیمانی کو دوبارہ تعمیر کیا۔ اسکے بعد رومیوں نے حملہ کیا اور اسے ایک بار پھر نشانہ بنایا۔ بعض تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اہل بابل اسے اپنے ساتھ لے گئے جبکہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اسے آسمانوں پر اٹھا لیا گیا۔ جب کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قیامت کے قریب حضرت سیدنا امام مهدی جب تشریف لائیں گے تو وہ اس صندوق کو فلسطین کی طبریہ نام کی ایک مشہور جھیل سے نکالیں گے۔ جبکہ ایک قول کے مطابق آپ اُسے ترکی کے شہر انطاکیہ کی کسی غار سے نکالیں گے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سرزمین کو فتح کیا تو رومیوں کے کلیسا سے کچھ فاصلے پر دعا فرمائی، جہاں مسجد اقصیٰ کی تعمیر کی گئی۔ یہودی دعویٰ کرتے ہیں کہ جس جگہ مسجد اقصیٰ واقع ہے وہاں ان کا معبد تھا۔ مسلمان اس جگہ کو اپنے لئے مقدس جانتے ہیں، مگر یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ مسجد کو شہید کر کے اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی دوبارہ تعمیر کی جائے گی۔ وہ ہیکل کی ایک پس ماندہ دیوار میں واقع دروازے کے متعلق بھی سمجھتے ہیں کہ یہ قیامت سے قبل ان کے بادشاہ کی واپسی کا راستہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب اس دروازے سے ان کا بادشاہ نکلے گا تو اس کے پیچھے تمام مردے اٹھ کھڑے ہوں گے، البته مسلم روایات کے مطابق یہودیوں کا بادشاہ دجال ہے۔ تابوت سکینہ وہ صندوق تھا جس میں حضرت موسی و ہارون (علیهما السلام کی باقیات تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں وہ اصلی تورات تھی جو حضرت موسی (ع) پر اتری جو پتھر کے الواح پر کندہ تھی۔ نیز آپ (ع) کی عصائے مبارک بھی تھا اور ہارون (ع) کی دستار یا عمامہ بھی موجود تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے تھے کہ یہ وہ صندوق تھا جس میں حضرت موسی (ع) کو بچپن میں رکھ کر دریائے نیل میں بہا دیا گیا تھا تفسیر جلالین) غرض اس میں وہ تمام تبرکات تھے جن کا تعلق جلیل القدر انبیاء سے تھا۔
اس تابوت کو نبی کی علامت بھی سمجھا جاتا تھا کیونکہ بنی اسرائیل میں جو بھی نبی آتا اس کے پاس یہ تابوت موجود ہوتا۔ لیکن بعد میں ایک دوسری قوم نے ان سے یہ تابوت چھین لیا۔ حضرت داؤد (ع) کو اس جالوت پر فتح ہوئی تو یہ تابوت پھر سے بنی اسرائیل کے پاس آگیا۔ یہاں تک کہ ایران کے بادشاہ بخت نصر کو یہودیوں پر فتح ہوئی تو یہ تابوت کہیں گم ہو گیا۔