ٹیپو سلطان کی حالات زندگی - ٹیپو سلطان کا تعارف

Story Or Poetry

ٹیپو سلطان کا شجرہ نسب - ٹیپو سلطان کی حالات زندگیٹیپو سلطان کا تعارف

ٹیپو سلطان کا خطاب

ہندوستان میں ایک سلطان ایسا بھی تھا کہ جب تک وہ زندہ رہا انگریزوں کو لگا کہ وہ ہندوستان پر قابض نہیں ہو سکتے۔ لیکن ایک انگریز افسر نے اس کی لاش میسور کے قلعے کے باہر دیکھی تو کہا کہ اب ہندوستان ہمارا ہے۔ یہ برصغیر میں انگریزوں کے لیے آخری بڑی رکاوٹ تھی


یہ سترہ سو ساٹھ کا ہندوستان ہے۔ دہلی سے کوئی 22 سو کلومیٹر دور جنوبی ہندوستان کا ایک شہر ہے سرنگا پٹم۔ اس شہر کے ایک مینار پر بنے کمرے میں ایک عجیب سی سرگرمی جاری ہے۔

ٹیپو سلطان کی حالات زندگی

ایک دس سالہ لڑکا بڑی جانفشانی سے ایک ریتی کی مدد سے کھڑکی کی سلاخیں کاٹ رہا ہے۔ اور اس کے پاس بیٹھا اس کا پانچ سالہ بھائی آنکھوں میں خوف بھرے اسے دیکھ رہا ہے۔ بڑے لڑکے نے کھڑکی کی سلاخیں کاٹیں، پھر کھڑکی سے ایک رسی باندھ کر نیچے لٹکا دی۔ اس نے اپنے بھائی کو پیٹھ پر لادا اور رسی کے ذریعے نیچے اتر گیا۔ کچھ ہی دیر میں سارے سرنگا پٹم میں ہاہا کار مچ گئی کہ باغی جنرل حیدر علی کے دونوں قیدی بیٹے ٹیپو اور کریم فرار ہو چکے ہیں۔ جی ہاں یہ سلاخیں کاٹنے والا ننھا بہادر فتح علی ٹیپو تھا۔ اور اب یہی ننھا سلطان اپنے بھائی کے ساتھ دشمنوں سے چھپتا پھر رہا تھا۔
وجہ یہ تھی کہ ٹیپو کا والد حیدر علی جو میسور کے راجہ کا سپہ سالار تھا- اپنے مخالفین کی سازشوں کی وجہ سے باغی قرار پا چکا تھا۔ اب وہ شہر سے فرار تھا۔ اس کے بیٹوں کو قید کیا گیا تھا لیکن وہ بھی بھاگ نکلے تھے۔ اس دوران ہولی کا تہوار آیا۔ حیدر علی کے ہمدردوں نے ٹیپو اور اس بھائی کو ہولی کے رنگوں میں رنگ دیا۔ ٹیپو نے چہرے پر بھی شیر کا ماسک پہن لیا- پھر دونوں بھائی کسی کی نظروں میں آئے بغیر ہی شہر سے نکل گئے اور اپنے باپ سے جا ملے۔ اس انتہائی فلمی انداز کے فرار کے ایک سال کے اندر ٹیپو کا باپ حیدر علی میسور کا حکمران بن چکا تھا اور ٹیپو ولی عہد۔ لیکن حیدر علی کا 21 سالہ دور حکومت دشمنوں سے جنگ و جدل میں ہی گزر گیا۔ اور جب 722 میں حیدر علی کی وفات کے بعد ٹیپو تخت نشین ہوا تو یہی مسائل اسے بھی منتقل ہو گئے۔ مسیور کی حکمرانی پھولوں کا بستر نہیں کانٹوں کی سیج تھی۔ یہ طے تھا کہ ٹیپو کتنا ہی قابل حکمران سہی لیکن وہ اپنی سلطنت کی تباہی کو ٹال تو سکتا تھا روک نہیں سکتا تھا۔ اس کی کیا وجہ تھی؟ اس کی وجہ تھی ریاست میسور کا انتہائی مشکل جغرافیہ۔ وہ صوبے جو آج بھارتی سٹیٹس کرناٹکا، تامل ناڈو اور کیرالہ کہلاتے ہیں ان کے بہت سے حصے ریاست میسور میں شامل تھے۔ دیکھنے میں یہ ایک بڑی ریاست تھی- لیکن اس کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ اس کے تین انتہائی خطرناک دشمن اس کی سرحدوں پر ہی بیٹھے تھے۔ کچھ مشرقی علاقوں اور جنوب میں ایسٹ انڈیا کمپنی یعنی انگریزوں کی حکومت تھی، جن کا جنوبی ہندوستان میں فوجی مرکز مدراس تھا جو اب چنئی کہلاتا ہے۔ انگریز علاقے کے ساتھ مشرق ہی میں حیدر آباد دکن کی ریاست تھی جو اب آندھرا پردیش کا حصہ ہے۔ جبکہ شمال کی طرف مرہٹے تھے جن کی سلطنت میسور کی سرحدوں سے دہلی تک پھیلی ہوئی تھی اور مغرب میں تھا سمندر۔ یعنی کسی طرف سے ٹیپو کو کوئی مدد مل سکتی تھی نہ وہ پیچھے ہٹ سکتا تھا۔ اور اس خطرناک جغرافیے کے ساتھ ایک اور بڑا مسئلہ بھی تھا۔ 
ٹیپو سلطان کا شجرہ نسب

اور وہ یہ کہ میسور ہندوستان کی دولت مند ریاستوں میں سے ایک تھی۔ مصالحہ جات کی پیداوار اور کپڑے کی صنعت یہاں خوب پھل پھول رہی تھی۔ میسور کے شہریوں کی آمدنی باقی ہندوستان کے لوگوں سے پانچ گنا زیادہ تھی۔ تو ایسے میں میسور کے مخالفین کی رال کیوں نہ ٹپکتی۔ اس کے تینوں طرف پھیلے دشمنوں کا واحد مقصد میسور پر قبضہ کرنا تھا، اس لیے ان سے صلح یا معاہدے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ یوں میسور کی ریاست خطرناک جغرافیے اور مشکل حالات میں کمزور دفاعی پوزیشن پر کھڑی تھی۔ لیکن ٹیپو ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھا۔ وہ صلح اور جنگ دونوں کے لیے تیار رہتا تھا۔ اس نے پہلے اپنے دشمنوں سے صلح کے معاہدے بھی کئے۔ لیکن یہ تمام کے تمام معاہدے ناکام رہے اور ٹیپو سلطان کو آخر جنگ ہی کرنا پڑی۔ ان جنگوں میں کئی بار اس نے اپنے دشمنوں کے ایسے دانت کھٹے کئے کہ لوگ اسے شیرِ میسور کہنے لگے۔ اس سلسلے کی پہلی جنگ وہی تھی جو اسے اپنے باپ سے ورثے میں ملی تھی۔ یعنی انگریزوں سے جنگ جس میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے میسور پر حملہ کر دیا تھا۔ یہ وہی جنگ تھی جس کے دوران ہی ٹیپو سلطان کے والد حیدر علی کی وفات بھی ہوئی تھی۔
ٹیپو سلطان کا شجرہ نسب

ٹیپو کی جگہ کوئی اور ہوتا تو باپ کی موت اور دشمن سے جنگ اس کے اعصاب شل کر دیتی اور یہ ریاست اسی وقت ختم ہو جاتی۔ لیکن ٹیپو نے تخت نشین ہوتے ہی ایک کے بعد ایک انگریزی لشکر کو دھول چٹائی۔ پھر اس نے بنگلور کے قلعے میں محصور انگریزی فوج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ برصغیر کی تاریخ میں انگریزوں کو ایسی ذلت آمیز شکست نہ پہلے کبھی ہوئی تھی نہ اس کے بعد۔ ایسے میں زخموں سے چور انگلش فوج نے صلح کی درخواست کی۔ اگر ٹیپو یہ جنگ جاری رکھتا تو وہ جنوبی ہندوستان میں انگریزوں کے ہیڈ کواٹر مدراس پر

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !