حضرت موسیٰ کی پیدائش سے لےکر وفات تک کہ مکمل واقعہ - حضرت موسی کا تعارف

Story Or Poetry


hazrat musa ka waqia ـ history of hazrat musa ali salam in urdu

حضرت موسیٰ کی پیدائش سے لےکر وفات تک کہ مکمل واقعہ
خداذ والجلال نے روز اول سے لے کر حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم تک نسل آدم کی ہدایت کے لئے بہت سی بر گزیدہ ہستیوں کو نبوت عطا کی تاکہ وہ لوگوں کو توحید کا درس دیں اور دین حق سے روشناس کروائیں۔ خدا ذو الجلال نے انسانوں کی ہدایت کے لیے جن ہستیوں کو چنا ان میں سے ایک حضرت موسی علیہ السلام بھی ہیں جنہیں بنی اسرائیل کی ہدایت کا مشن سونپا گیا حضرت موسی علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید کی تیس سے زیادہ سورتوں میں آیا ہے جن میں حضرت موسی علیہ السلام کی زندگی اور ان کی زندگی میں پیش آنے والے حالات و واقعات کی طرف ایک سو سے زیادہ بارہ اشارہ کیا گیا ہے اور آپ علیہ السلام کا نام قرآن پاک میں 128 بار آیا ہے خداذ و الجلال نے آپ علیہ السلام کی زندگی میں پیش آنے والے حالات و واقعات کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ دوستو! بنی اسرائیل وہ قوم ہے جن کو خدا عز و جل نے بہت سی نعمتیں عطا کیں لیکن یہ قوم پھر بھی نہ فرمانی کرتی رہی۔ خداذ والجلال نے اس نافرمان قوم کی اصلاح کے لئے بے شمار انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا اس کے باوجود یہ قوم صراط مستقیم پر نہ آئی۔ یہ قوم اتنی بد بخت تھی کہ انبیاء کرام کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے اور خداذ والجلال کے ان خاص بندوں کی کھلی نشانیاں اور معجزات دے کر بھی ہدایت قبول نہیں کرتے تھے یہ قوم مصر میں فرعون کی غلامی میں زندگی گزار رہی تھی تو خداذ و الجلال نے اس قوم کی مدد کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھیجا تھا آپ علیہ السلام نے اس قوم کو فرعون سے آزاد کروایا اور حق کی دعوت دی۔ آپ علیہ السلام نے اپنی مبارک زندگی میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کیا بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور زندگی کی تمام مشکلات کا سامنا کرتے کرتے آپ علیہ السلام کا اس دنیا سے رخصت کا وقت آگیا آپ علیہ السلام ایک سو ہیں برس کی عمر میں خداذ و الجلال کی رحمت میں چلے گئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب حضرت موسیٰ ابن عمران علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کے پاس موت کا فرشتہ عزرائیل علیہ السلام آیا اور کہا کہ اپنے پروردگار کی طرف سے پیغام اجل قبول فرمائیے یعنی آپ کی روح قبض ہونے کا وقت آپہنچا ہے واصل الی اللہ ہونے کے لئے تیار ہو جائیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ سن کر فرشتہ موت کو طمانچہ رسید کر دیا جس سے اس کی آنکھ پھوٹ گئی۔
حضرت موسی کا تعارف
 آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موت کا فرشتہ در بارالہی میں واپس گیا اور عرض کیا کہ پروردگار تو نے مجھے روح قبض کرنے کے لئے اپنے ایک ایسے بندے کے پاس بھیجا جو موت نہیں چاہتا اور یہ کہ اس نے میری آنکھ بھی پھوڑ دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے فرشتہ موت کی یہ شکایت سن کر اس کی آنکھ درست کر دی اور یہ حکم دیا کہ میرے بندے موسیٰ علیہ السلام کے پاس دوبارہ جاؤ اور ان کو میرا یہ پیغام پہنچاؤ کہ کیا تم طویل زندگی چاہتے ہوا گر تم طویل زندگی چاہتے ہو تو کسی بیل کی کمر پر اپنا ہاتھ یادونوں ہاتھ رکھ دو تمہارے اس ہاتھ یا دونوں ہاتھوں کے نیچے جتنے بال آجائیں گے ان میں سے ہر ایک بال کے عوض تمہاری زندگی میں ایک ایک سال کا اضافہ ہو جائے گا۔ فرشتے نے دوبارہ حاضر ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالی کا یہ پیغام سنایا تو انہوں نے کہا کہ اس طویل کی زندگی کا بھی آخری نتیجہ موت ہی ہے تو پھر وہ آج ہی کیوں نہ آجائے میں اسی وقت موت کی آغوش میں جانے کے لیے تیار ہوں لیکن میری یہ دعا ضرور ہے کہ رب کریم تدفین کے لئے مجھے ارض مقدس یعنی بیت المقدس سے قریب کر دے اگرچہ ایک پھینکے ہوئے پتھر کے بقدر ہو۔ اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اگر میں بیت المقدس کے قریب ہوتا تو تمہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر کا نشان دکھا دیتا جو ایک راستے کے کنارے پر سرخ ٹیلے کے قریب ہے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی شرح میں اس کی مختلف وجوہات تحریر فرمائی ہیں ایک وجہ یہ بیان فرمائی ہے در حقیقت اس میں تھپر کھانے والے فرشتے کا امتحان تھا یعنی اللہ تعالی کے مقدس انبیاء کرام کی روح قبض کرتے ہوئے پہلے اجازت لی جاتی ہے یوں جا کر براہ راست روح کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کیا جاتا اور اللہ تعالی جس کا چاہیں امتحان لیتے ہیں اور جو چاہیں اپنی مخلوق میں پیدا فرمادیتے ہیں ایک اور وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ملک الموت جب انسانی شکل میں آیا اور اس نے روح قبض کرنے کی بات کی تو پہلے پہل حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسے پہچانا ہی نہیں اور انسان سمجھتے ہوئے اپنے دفاع میں اسے تھپر مارا اور یہ ضابطہ ہے کہ جب فرشتہ یا جن انسانی شکل میں ہو تو اس میں اتنی ہی جان ہوتی ہے جو کہ ایک طاقتور انسان میں ہو سکتی ہے لہذا ملکا لموت حضرت موسی علیہ السلام کے تھپڑ کی تاب نہ لا سکے۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !