حضرت ابراہیم کی پیدائش سے لےکر وفات تک کی مکمل کہانی

Story Or Poetry


hazrat ibrahim ka laqab in urdu hazrat ibrahim ka waqia in urdu written

hazrat ibrahim ki tasveer
مشہور ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام مہمان نوازی کی روایت کو شروع کرنے والے پہلے شخص تھے آپ علیہ السلام بے حد مہمان نواز تھے اور اللہ تعالی کو آپ کی یہ ادا بہت پسند تھی۔ روایات میں ہے کہ آپ تب تک کھانا تناول نہ کرتے جب تک کسی مہمان کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک نہ کر لیتے چنانچہ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ کسی انسان کو تلاش کرنے کے لیے گھر سے نکلے تاکہ اسے مہمان بنا سکیں آپ علیہ السلام نے بہت تلاش کیا مگر کوئی بھی مہمان بننے کو تیار نہ ہوا تھک ہار کے واپس پلٹے تو دیکھا کہ ایک اجنبی گھر میں کھڑا ہے آپ نے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ اجنبی نے کہا کہ میں ملک الموت ہوں اور مجھے رب العالمین نے ایک بندہ کی طرف بھیجا ہے تا کہ اسے خوشخبری سناؤں کہ اللہ تعالی نے اسے اپنا خلیل بنالیا ہے آپ نے پوچھا کہ وہ کون خوش نصیب ہے ؟ اگر مجھے پتہ چل جائے تو تادم آخر اس کا ہمسایہ بنارہا ہوں۔ ملک الموت نے کہا کہ وہ خوش قسمت تو آپ ہی ہیں اور یہ اس وجہ سے ہے کہ بلا امتیاز و تفریق آپ کی عطاؤں کے دروازے لوگوں کے لیے کھلے ہیں۔ اللہ تعالی کو آپ کی یہ ادا بہت پسند تھی کہ آپ اس کی مخلوق پر بے حد رحم دل تھے۔ آپ علیہ السلام کا شمار پانچ اولو العزم انبیاء میں ہوتا ہے۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں 35 مقامات پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر خیر فرمایا آپ علیہ السلام نے 33 برس کی عمر میں حضرت سارہ سلام اللہ علیہا سے نکاح کیا اور ایران، مصر کی طرف ہجرت کرنے کے بعد فلسطین اور انڈیا کے درمیانی علاقے صبا میں سکونت اختیار کر لی۔ وہاں آپ نے کنواں کھودا اور مسجد بنائی۔ لوگوں کے بیجا ستانے اور اذیتیں پہنچانے کی وجہ سے آپ نے وہاں سے بھی ہجرت فرمائی اور رملہ اور ایلیا کے درمیانی علاقے میں سکونت اختیار کی وہاں بھی آپ نے ایک کنواں کھودا۔ کتب تواریخ میں آپ کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں۔ آپ سب سے پہلے تھے جنہوں نے ختنہ کیا مہمان نوازی کی روایت قائم کی ثرید بنایا با قایدہ شلوار پہنی اور آپ ہی پہلے شخص ہیں جس نے بڑھاپا دیکھا۔ آپ علیہ السلام نے حضرت سار اسلام اللہ علیہا کی وفات کے بعد دو عرب عورتوں سے نکاح کیا ایک کا نام قاطور ا تھا اور اس سے آپ کے چھ لڑکے پیدا ہوئے اور دوسری کا نام ماجور تھا اور اس کے بطن سے پانچ لڑکے پیدا ہوئے۔ تاریخ طبری میں مصنف امام ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی روح نکالنے کا ارادہ فرمایا تو ایک بوڑھے آدمی کی شکل میں موت کے فرشتے کو بھیجا۔ سدی سے مروی ہے کہ ایک روز آپ لوگوں میں کھانا تقسیم فرمارہے تھے کہ ایک بوڑھا چلتا ہوا آیا وہ بوڑھا اس قدر ضعیف تھا کہ اس کے لیے چلنا مشکل تھا۔ آپ علیہ السلام کی نظر اس پر پڑی تو از راہ ہمدردی اس کی طرف گدھا بھیجا تا کہ وہ اس پر سوار ہو کر آجائے۔ بوڑھا آپ کے پاس پہنچا تو آپ نے اس کے سامنے کھانا پیش کیا مگر یہاں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ وہ بوڑھا آدمی جب منہ میں لقمہ ڈالنے کے لیے ہاتھ اٹھاتا تو باعث ضعف ہاتھ چوک جاتا ہے اور لقمہ منہ کی بجائے کبھی ناک پر لگتا اور کبھی کان پر حتی کہ اگر وہ بمشکل ایک لقمہ منہ میں ڈالنے میں کامیاب ہو جاتا تو وہ شرمگاہ کے راستے باہر نکل آتا۔ اس بوڑھے کی بے بسی پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بے حد ترس آیا آخر آپ نے اس بوڑھے سے یہ پوچھا:
اے شخص یہ تم کیا کر رہے ہو ؟ اس نے جواب دیا کہ میرا ہاتھوں پر اختیار نہیں رہا بھوک مٹانے کو کھاتا ہوں مگر پیٹ میں کچھ رکتا نہیں، بہت تکلیف میں ہوں۔
آپ نے پھر پوچھا کہ تمہاری عمر کیا ہے ؟ اس نے عمر بتائی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم مجھ سے صرف دو سال بڑے ہوا اگر تمہارا یہ حال ہے تو دو سال بعد میں بھی اس حال کو پہنچ جاؤں گا۔ آپ علیہ السلام نے اسی وقت دعا فرمائی کہ اے اللہ ! اس حالت کے آنے سے پہلے مجھے موت دے دے۔ چنانچہ وہ اچانک اٹھ کھڑا ہوا جو کہ در حقیقت موت کا فرشتہ تھا اور اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی روح قبض کر لی۔ اس وقت آپ علیہ السلام کی عمر مبارک دو سو سال تھی اور ایک دوسرے قول کے مطابق ایک سو پچھتر سال تھی اور ایک تیسرے قول کے مطابق ایک سو نوے سال تھی۔ مذکور ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی موت اچانک آئی۔ آپ کو حبرون حیشی بستی میں اس جگہ دفن کیا گیا جہاں حضرت سارہ سلام اللہ علیہاد فن تھیں۔ آپ نے دفن کے لئے زمین کو اپنے ہاتھوں سے چار سو درہم میں خریدا تھا .آپ کے کفن و دفن کا انتظام حضرت اسحاق علیہ السلام نے کیا تھا۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !