میرے شوہر کا رنگ بہت کالا تھا اور میں بہت خوبصورت تھی میں اپنے شوہر کا بچہ ۔۔۔

Story Or Poetry


نافرمان بیوی کا نان نفقہ -شوہر کی اجازت کے بغیر میکے جانا


میرا شوہر کولہے سے بھی زیادہ کالا تھا جبکہ میں بہت زیادہ خوبصورت تھی۔ ۔ مجھے اپنے شوہر سے نفرت تھی اور اُسی وجہ سے میں اس کا بچہ جنم نہیں دینا چاہتی تھی جبکہ میرا شوہر روز میرے لیے ڈھیروں پھل فروٹ لاتا تاکہ میں اس کا صحت مند بچہ پیدا کرسکتا۔ جبکہ میں اسکا بچہ پیدا کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ حالانکہ میری ڈیلیورے کے دن بھی بہت زیادہ نزدیک تھے۔ یوں ایک دن میں نے جان بوجھ کر پھسلی تاکہ بچہ ضائع ہوجائے جو ہی مجھے تیز درد شروع ہوا تو شوہر مجھے فوراً ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گیا۔ کچھ دیر کے بعد مجھے ہوش آیا تو یہ دیکھ کر روح لرز گئی کہ میرا شوہر گود میں مردہ بچہ اٹھائے۔ پورے ہسپتال میں رہا تھا اور جب وہ میرے پاس آیا تو اس نے مجھے ایک ایسی چیز دکھائی کہ میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی کیونکہ میں جب ہوش میں آئی جب میں نے ہسپتال کے بیڈ پر بیسد لیٹی ہوئی تھی مجھے نرس نے افسردگی سے بتایا کہ ہم آپ کا بچہ بچا نہیں پائے۔ یہ خبر سن کر ایک لمحے کے لیے میرے دل کو کچھ ہوا تھا جیسے میرے جسم سے کسی نے میری روح جدا کر دی ہو۔ میں نے خالی خالی نظر ارد کے دوڑائی تو مجھے تنویر نظر آئی اس نے گود میں مردہ بچے کو اُٹھایا ہوا تھا اور وہ پورے ہسپتال میں مٹھائی بانٹ رہا۔ تھا۔ مجھے ہوش میں دیکھ کر وہ بھاگ کر میری جانب آگیا اور بولا مبارک ہو ریمشاں تم نے بیٹے کو جنم دیا ہے۔ مگر یہ مر گیا ہے کوئی لیکن کوئی بات نہیں۔ میں اس سے اپنے پاس رکھوں گا یہ میرا بیٹا ہے میں اس کو دفعہ
دفعہ نہیں کروں گا۔ رنبیر کی بات سن کر ایک دم سے میرا دل بیٹھ گیا تھا اس نے مجھے بچے کی شکل دکھائی۔ وہ ہوا میری کاپی تھا۔ سرخ اور سفید رنگت پیاری سی ناک، چھوٹے چھوٹے ہوں، ایک دم میرے دل پر ڈھیروں بوجھ پڑ گیا تھا۔ میں پھوٹ پھوٹ کر زار و قطار رو دی تھی تنویر بھی رونے لگ گیا تھا لیکن وہ بولا۔ ریمشاں رونے کی ضرورت نہیں ہے یہ میرا بیٹا ہے یہ ہمارے گھر جائے گا ہمارے ساتھ ہی رہے گا۔ میں نے اس بات کو تنویر کا جذباتی پن خیال کیا تھا۔ مگر میں نہیں جانتی تھی کہ وہ اپنی دھن کا پکا ہے اور جو وہ کہہ رہا ہے وہ کر کے گزرے گا۔ اگلے دن مجھے ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا تھا۔ میں گھر گئی تو میں نے دیکھا کہ ایک کمرہ تنویر نے بچے کے لیے سیٹ کیا ہوا تھا
تغیر نے بولا میں نے نا اپنے بیٹے کا نام علی رکھا ہے یہ کمرہ علی کا ہے اور وہ اُسی میں رہے گا۔ میں نے روتے ہوئے اس کی منہ کی طرف دیکھا اور کہا ایسا مت کرو ہمارا بچہ مر چکا ہے تو اس کو اسلامی احکامات کے تحت دفن کر دو تنویر میری بات سن کر چڑھ گیا تھا غصے سے بولا آج تم نے یہ بات کر دی لیکن آج۔ تمہارے منہ سے ایسی کوئی بات نہ سنو۔ میرا بیٹا زندہ ہے اور یہ میرے ساتھ ہی رہے گا۔ مجھے تنویر کی دماغی حالت پر شک ہونے لگا تھا لیکن میں ایسے کچھ کیا نہیں پاتی تھی لیکن وہ میری باتوں سے تنگ آکر اس کمرے میں شفٹ ہو گیا تھا جو اس نے بیٹے کے لیے سجایا ہوا تھا۔ میرے سامنے تنویر بچے کے لیے کبھی فیڈر بنا کر لے جاتا ہے۔
کبھی اس کے دیئے پر تبدیل کرتا تھا۔ میرے دل کو کچھ کچھ ہوتا تھا۔ میں نے 1 دن غصے سے تنویر کو کہا کہ میرے بیٹے کی لاش کی بے حرمتی مت کرو اس کو دفن کر دو تنویر نے میرے منہ پر تھپڑ مار دیا اور بولا میں نے تمہیں کتنی بار کہا ہے کہ تم میرے بیٹے کو مردہ مت کہو آؤ میں تمہیں کچھ دکھاتا ہوں وہ زبردستستی ہی میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اس کمرے ملے گیا تھا جہاں پر علی ہوا تھا اس نے ایک دم سے بیٹے کے منہ سے کپڑا ہٹا دیا میری نظر جیسے ہی بچے کے منہ پر پڑی تو میرے منہ سے زور دار چیخ برآمد ہوئی کیونکہ وہاں تو مجھے وقت یاد آنے لگا تھا جب میں اپنی ہی دھن میں گھر یا آئینے میں عکس دیکھ کر ناچنے کی کوشش کر رہی ہوتی اور ساتھ ساتھ وہ گانا بھی گنگنا رہی ہوتی جو میں نے آج ساتھ والے گھر سے سن کر آئی تھی۔
مجھے یہ خبر ہی نہ ہوئی کہ اماں کب آئی اور کب مجھ پر اپنے جوتے کی ہوائی فائرنگ کر ڈالی۔ تھی۔ اماں کا نشانہ بڑا پکا تھا۔ میری کمر پر دب کر کے جوتا لگا دیا تھا۔ اور میں درد سے بل بلا اٹھی تھی اماں مجھے بڑے کڑے تیوروں سے دیکھ رہی تھیں۔ وہ بولی آن آ جانے دو مولیصاحب کو تمہارے یہ نٹ پھر سے ڈھیلے پڑ گئے ہیں۔
اماں مجھے ہمیشہ بھی ابا کی دھمکی دیا کرتے تھے۔ کیوں کہ ابا سے مجھے بہت ڈر لگتا تھا۔ وہ ایک شریف و نفس اور وعدادار آدمی تھے۔ وہ اپنے محلے کی مسجد کے ایمان تھے۔ انہوں نے دین کے ہر پہلو کو اپنی زندگی پر لاگو کیا ہوا تھا۔ جب کہ اس قدر پابندیوں سے چھیڑتی تھیں۔ میں ایک آزاد خیال تھی، انسان تھی، میرا ماننا تھا۔
میں اپنے اعمال کا حساب خود دینا ہے۔ اس لیے مجھے میری من پسند کی زندگی گزارنے دی جائے۔ مگر کہاں جی موری صاحب تو ہمارے گھر کے ہٹلر تھے میں اور میرے چھوٹے بہن بھائی ان سے بڑا ڈرتے تھے۔ مجھے گانے سننے، ڈرامے دیکھنے اور ناول پڑھنے کا بہت زیادہ شوق تھا۔ مگر ہمارے گھر میں ان چیزوں کو مشروب ممنوع کی طرح قابل نفرت سمجھا جاتا تھا مگر میں کہاں کسی کے کہنے میں تھی میں اپنی سہیلیوں سے ان کے ناول ادھار لے کر کتابوں میں چھپا کر بڑا کرتی۔ تھی۔ ناول میں جب کسی دراز کا کلین سھپے اور گہری آنکھوں والے ہیروز کا ذکر آتا تو میرا دل دھڑک اٹھتا تھا۔ میں نے زمانے والوں سے چھپ چھپ کر بہت سے خواب اپنی پلکوں تلے چھپا کر رکھے ہوئے تھے۔ میں پوری امید تھی کہ ایک نہ ایک دن مجھے

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !