حضرت ابوبکر صدیق کی
خلافت - حضرت ابوبکر صدیق کی سیرت
حضرت ابوبکر صدیق کی شان، میں نام و نسب، خاندان کے بارے
حضرت ابوبکر صدیق کا اصل نام کیا تھا
عبدالله نام ، ابو بکر کنیت ، صدیق او رعتیق لقب ، والد کا نام عثمان اور کنیت ابو قحافہ، والدہ کا نام سلمی اور ام الخیر کنیت ، والد کی طرف سے پورا سلسلہ نسب یہ ہے: عبد اللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی القرشی التمیمی، اور والدہ کی طرف سے سلسلے نسب یہ ہے: ام الخیر بنت سخر بن عامر بن کعب بن سعد بن تمیم بن مرہ، اس طرح حضرت ابو بکر کا سلسلہ نسب چھٹی پشت میں مرہ پر آٓنخضرت سے جا ملتا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق کی ولادت
ابو قحافہ عثمان بن مرہ شرفائے مکہ میں سے تھے اور نہایت معمر تھے۔ ابتدا جیسا کہ بوڑھوں کا قاعدہ ہے وہ اسلام کی تحریک کو بازیچۂ اطفال سمجھتے تھے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ کا بیان ہے کہ جب آنحضرت نے ہجرت فرمائی ہے تو میں آپ کی تلاش میں حضرت ابو بکر کے گھر آیا، وہاں ابو قحافہ موجود تھے۔ انہوں نے حضرت علی کو اس طرف سے گزرتے ہوئے دیکھ کر نہایت برہمی سے کہا کہ ان بچوں نے میرے لڑکے کو بھی خراب کر دیا۔
ابو قافیہ فتح مکہ تک نہایت استقلال کے ساتھ اپنے آبائی مذہب پر قائم رہے۔ فتح مکہ کے بعد جب رسول اللہ مسجد میں تشریف فرما تھے وہ اپنے فرزند سعید حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے ۔ آنحضرت نے ان کے ضعف پیری کو دیکھ کر فرمایا کہ انہیں کیوں تکلیف دی میں خود ان کے پاس پہنچ جاتا۔ اس کے بعد آپ نے نہایت شفقت سےان کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور کلمات طیبات تلقین کرکے مشرف باسلام فرمایا۔ حضرت ابو قحافہ نے بڑی عمر پائی ۔ آنحضرت کے بعد اپنے فرزند ارجمند حضرت ابو بکر کے بعد بھی کچھ دنوں تک زندہ رہے آخر عمر میں بہت ضعیف ہوگئے تھے ۔ آنکھوں کی بصارت جاتی رہی تھی، ۱۴ھ ۹۷ سال کی عمر میں وفات پائی ۔
حضرت ابوبکر صدیق کا خطبہ
حضرت ابو بکر صدیق اسلام سے قبل ایک متمول تاجر کی حیثیت رکھتے تھے اور ان کی دیانت راستبازی اور امانت کا خاص شہرہ تھا، اھل مکہ انکو عکم تجربہ اور حسن خلق کے باعث نہایت معزز مجھے تھے۔ ایام جاہلیت میں خوں بہا کا مال آپ ہی کے ہاں جمع ہوتا تھا۔ اگر کبھی کسی دوسرے شخص کے یہاں جمع ہوتا تو قریش اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ حضرت ابو بکر کو ایام جاہلیت میں بھی شراب سے ویسی ہی نفرت تھی جیسی زمانہ اسلام میں ۔ اس قسم کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ : شراب نوشی میں نقصان آٓبرو ہے۔
أنحضرت کے ساتھ بچپن ہی سے ان کو خاص انس اور خلوص تھا اور آپ کے حلقہ احباب میں داخل تھے۔ اکثر تجارت کے سفروں میں بھی ہمراہی کا شرف حاصل ہوتا تھا
حضرت ابو بکرؓ کا اسلام
آنخضرت صلعم کو جب خلعت نبوت عطا ہوا اور آپ نے مخفی طور پر احباب مخلصین اور محرمان راز کے سامنے اس حقیقت کو ظاہر فرمایا تو مردوں میں سے حضرت ابو بکر نے سب سے پہلے بیت کے لئے ہاتھ بڑھایا_ بعض ارباب سیر نے ان کے قبول اسلام کے متعلق بہت سے طویل قصے نقل کئے ہیں لیکن یہ سب حقیقت سے دور ہیں ۔ اصل یہ ہے کہ ابو بکر کا آئینہ دل پہلے سے صاف تھا۔ فقط خورشید حقیقت کی عکس افگنی کی دیر تھی۔ گزشتہ محبتوں کے تجربوں نے نبوت کے خط و خال کو اس طرح واضح کر دیا تھا کہ معرفت کے لئے کوئی انتظار باقی نہ رہا۔ البتہ ان کے اول مسلمان ہونے میں بعض مورخین اور اہل آثار نے کلام کیا ہے ۔
حضرت ابو بکرؓ کا اشاعت اسلام
حضرت ابو بکر صدیق نے مسلمان ہونے کے ساتھ ہی دین حنیف کی نشر و اشاعت کے لئے جد و جہد شروع کردی، اور صرف آپ کی دعوت پر
1 : حضرت عثمان بن عفان
2 : حضرت زبیر بن العوام
3 : حضرت عبد الرحمن بن عوف
4 : حضرت سعد بن ابی وقاص
5 : حضرت طلحہ بن عبد الله
جو معدن اسلام کے سب سے تابا و درخشاں جواہر ہیں مشرف باسلام ہوئے۔
1 : حضرت عثمان بن مظعون
2 : حضرت ابو عبیدہ
3 : حضرت ابو سلمہ
حضرت خالد بن سعید بن العاصب ھی آپ ہی کی ہدایت سے دائره اسلام میں داخل ہوئے۔ یہ وہ اکابر صحابہ ہیں جو آسمان اسلام کے اختر ہائے تاباں ہیں لیکن ان ستاروں کا مرکز شمسی حضرت ابو بکر صدیق ہی کی ذات تھی ۔ اعلانیہ دعوت کے علاوہ ان کا مخفی روحانی اثر بھی سعید روحوں کو اسلام کی طرف مائل کرتا تھا۔ چنانچہ اپنے صحن خانہ میں ایک چھوٹی سی مسجد بنائی تھی ۔ اور اس میں نہایت خشوع وخضوع کیساتھ عبادت الہی میں مشغول رہتے تھے۔ آپ نہایت رقیق القلب تھے۔ قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔ لوگ آپ کے گریہ و بکا کو دیکھ کر جمع ہو جاتے اور اس پُر اثر منظر سے نہایت متاثر ہوتے
حضرت ابو بکرؓ کی مکہ کی زندگی
أنحضرتؐ نے بعثت کے بعد کفار کی ایذا رسانی کے باوجود تیرہ برس تک مکہ میں تبلیغ و دعوت کا سلسلہ جاری رکھا ۔ حضرت ابو بکرؓ اس بے بسی کی زندگی میں جان، مال، رائے و مشورہ، غرض ہر حیثیت سے آپ کے دست و بازو اور رنج و راحت میں شریک رہے۔ آنحضرتؐ روزانه صبح و شام حضرت ابو بکرؓ کے گھر تشریف لے جاتے اور دیر تک بمجلس راز قائم رہتی۔ قبائل عرب اور عام مجمعوں میں تبلیغ و ہدایت کے لئے جاتے تو بھی ہمرکاب ہوتے اور نسب دانی اور کثرت ملاقات کے باعث لوگوں سے آپ کا تعارف کراتے ۔'
مکہ میں ابتداء جن لوگوں نے داعی توحید کو لبیک کہا ان میں کثیر تعداد غلاموں اور لونڈیوں کی تھی، جو اپنے مشرک آقاؤں کے اپنے ظلم و ستم میں گرفتار ہونے کے باعث طرح طرح کی اذیتوں میں مبتلا تھے۔ حضرت ابوبکر نے ان مظلوم بندگان توحید کو ان کے جفا کار مالکوں سے خرید کر آزاد کر دیا۔ چنانچہ
1 : حضرت بلال
2 : عامر بن فہیر
3 : نذیره
4 : نہدیہ
5 : جاریہ
6 : بنی مومل
7 : بنت نہدیہ
وغیرہ نے اسی صدیقی جود و کرم کے ذریعہ سے نجات پائی۔
کفار جب کبھی آنحضرت پر دست تعدی درازی کرتے تو یی مخلص جانثار خطرہ میں پڑ کر خود سینہ سپر ہو جاتا ۔ ایک دفعہ آپؐ خانہ کعبہ میں تقریر فرما رہے تھے مشرکین اس تقریر سے سخت برہم ہوئے، اور اس قدر مارا کہ آپؐ بے ہوش ہو گئے۔ حضرت ابوبکر نے بڑھ کر کہا’’خدا تم سے سمجھے، کیا تم صرف ان کو اس لئے قتل کر دوگے کہ ایک خدا کا نام لیتے ہیں‘‘
اسی طرح ایک روز أںحضرتؐ نماز پڑھ رہے تھے کہ اسی حالت میں عقبہ بن معیط نے اپنی چادر سے گلوئے مبارک میں پھندا ڈال دیا۔ اس وقت اتفاقا حضرت ابو بکرؓ پہنچ گئے، اور اس ناہنجار کی گردن پکڑ کر خیر الانام علیہ السلام سے علیحدہ کیا، اور فرمایا: کیا تم اس کو قتل کروگے جو تمہارے پاس خدا کی نشانیاں لایا اور کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے؟“
انحضرتؐ اور حضرت ابو بکرؓ میں رشتہ مصاہرت مکہ ہی میں قائم ہوا، لیکن حضرت ابوبکر کی صاحبزادی حضرت عائشہ آنحضرتؐ کے نکاح میں آئیں لیکن رخصتی ہجرت کے دو سال بعد ہوئی۔
حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت
ابتداءً مشرکین قریش نے مسلمانوں کی قلیل جماعت کو چنداں اہمیت نہ دی، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ روز بروز ان کی تعداد بڑھتی جاتی ہے، اور اسلام کا حلقۂ اثر وسیع ہوتا جاتا ہے، تو نہایت سختی سے انہوں نے اس تحریک کا سد باب کرنا چاہا۔ ایذا اور تکلیف رسانی کی تمام ممکن صورتیں عمل میں لانے لگے ۔ آنحضرتؐ نے جب اپنے جانثاروں کو ان مصائب میں مبتلا پایا، تو ستم زدوں کو حبش کی طرف ہجرت کی اجازت دی۔ اور بہت سے مسلمان حبش کی طرف روانہ ہو گئے ۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ بھی باوجود وجاہت ذاتی اور اعزاز خاندانی کے اس داروگیر سے محفوظ نہ تھے۔ چنانچہ جب حضرت علی بن عبد اللہؓ ان کی تبلیغ سے حلقہ بگوش اسلام ہوئے، تو حضرت علیؓ کے چچا نوفل بن خویلد نے ان دونوں کو ایک ساتھ باندھ کر مارا اور حضرت ابو بکرؓ کے خاندان نے پیچھے حمایت نہ کی۔ ان اذیتوں سے مجبور ہو کر آپ نے آنحضرت ا سے اجازت لی، اور رخت سفر باندھ کر عازم یحبش ہوئے۔ جب آپؓ مقام "برک الغما'' میں پہنچے، تو، '' ابن الدغنہ'' رئیس '' قارہ'' سے ملاقات ہوئی ۔ اس نے پوچھا ابو بکرؓ کہاں کا قصد ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ قوم نے مجھے جلا وطن کر دیا ہے۔ اب ارادہ ہے کہ کسی اور ملک کو چلا جاؤں، اور آزادی سے خدا کی عبادت کروں ۔ ابن الدغنہ نے کہا کہ تمسا آدمی جلا وطن نہیں کیا جاسکتا۔ تم مفلس و بے نوا کی دست گیری کرتے ہو، قرابت داروں کا خیال رکھتے ہو، مہمان نوازی کرتے ہو، مصیبت زدوں کی اعانت کرتے ہو۔ میرے ساتھ واپس چلو اور اپنے وطن ہی میں اپنے خدا کی عبادت کرو۔ چنانچہ آپ ابن الدغنہ کے ساتھ پھر مکہ واپس آئے ۔ ابن الدغنہ نے قریش میں پھر کر اعلان کر دیا کہ اۤج سے ابو بکرؓ میری امان میں ہیں ۔ ایسے شخش کو جلا وطن نہ کرنا چاہیئے، جو محتاجوں کی خبر گیری کرتا ہے، قرابت داروں کا خیال رکھتا ہے، مہمان نوازی کرتا ہے، اور مصائب میں لوگوں کے کام آتا ہے ۔ قریش نے ابن الدغنہ کی امان کو تسلیم کیا، لیکن فرمائش کی کہ ابو بکر کو سمجھا دو کہ وہ جب اور جس طرح چاہے اپنے گھر میں نمازیں پڑھے، اور قرآن کی تلاوت کریں، لیکن گھر سے باہر نمازیں پڑھنے کی ان کو اجازت نہیں ۔ مگر جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے حضرت ابو بکر صدیقؓ نے عبادات الہی کے لئے اپنے صحن خانہ میں ایک مسجد بنا لی تھی ، کفار کو اس پر بھی اعتراض ہوا۔ انہوں نے ابن الدغنہ کوخبر دی کہ ہم تمہاری ذمہ داری پر ابو بکرؓ کو اس شرط پر امان دی تھی کہ وہ اپنے مکان میں چھپ کر اپنے مذہبی فرائض ادا کریں ۔ لیکن اب وہ صحن خانہ میں مسجد بنا کر اعلان کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں ، اس سے ہم کو خوف ہے کہ ہماری عورتیں اور بچے متاثر ہو کر اپنے آبائی مذہب سے بد عقیدہ نہ ہو جائیں ۔ اس لئے تم انہیں مطلع کر دو کہ اس سے باز آجائیں ورنہ تم کو زمہ داری سے بری سمجھیں ۔ ابن الدغنہ نے ابو بکر صدیقؓ سے جا کر کہا تم جانتے ہو کہ میں نے کس شرط پر تمہاری حفاظت کا ذمہ لیا ہے ، اس لئے یا تو تم اس پر قائم رہو یا مجھے ذمہ داری سے بری سمجھو، میں نہیں چاہتا کہ عرب میں مشہور ہو کہ میں نے کسی کے ساتھ بد عہدی کی، لیکن حضرت ابو بکرؓ نے نہایت استغناء کے ساتھ جواب دیا کہ مجھے تمہاری پناه کی حاجت نہیں، میرے لئے خدا اور اس کے رسول کی پناہ کافی ہے
حضرت ابوبکر صدیق کا پیشہ
کفار ومشرکین کا دست ستم روز بروز زیادہ دراز ہوتا گیا، تو آپ نے پھر دو بارہ ہجرت کا قصد فرمایا، اس وقت تک مدینہ کی سر زمین نور اسلام سے منور ہو چکی تھی، اور ستم رسیدہ مسلمانوں کو نہایت خلوص و محبت کے ساتھ اپنے دامن میں پناہ دے رہی تھی۔ اس لئے اس دفعہ آپؓ نے مدینہ کو اپنی منزل قرار دیا اور ہجرت کی تیاری شروع کردی، لیکن بارگاہ نبوت سے حکم ہوا کہ ابھی
عجلت سے کام نہ کرو۔ امید ہے کہ خدائے پاک کی طرف سے مجھے بھی ہجرت کا حکم ہوگا ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے نہایت تعجب سے پوچھا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کیا آپ کو بھی ہجرت کا حکم ہوگا؟‘‘ ارشاد ہوا ہاں!‘‘ عرض کی یا رسول اللہ! مجھے ہمراہی کا شرف نصیب ہو۔ فرمایا ہاں ! تم ساتھ چلو گے“۔ اس بشارت کے بعد ارادہ ملتوی کر دیا اور چار ماہ تک منتظر ہے۔
حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ آنحضرت عموما صبح و شام حضرت ابو بکر صدیق کے گھر تشریف لایا کرتے تھے۔ ایک روز منہ کو چھپائے ہوئے خلاف معمول ناوقت تشریف لائے ۔ اور فرمایا کہ کوئی ہوتو ہٹا دو۔ میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔ حضرت ابو بکر صدیق نے عرض کی کہ گھر والوں کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ یہ سن کر آپ اندر تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے ہجرت کا حکم ہو گیا ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق نے پھر ہمراہی کی تمنا ظاہر کی ۔ ارشاد ہوا ہاں تیار ہو جاؤ ۔ وہ تو چار مہینے سے اسی انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے ، فورا تیار ہو گئے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ اور حضرت اسماء نے جلدی جلدی رخت سفر درست کیا۔ حضرت اسماء کو توشہ دان باندھنے کے لئے کوئی چیز نہیں ملی تو انہوں نے اپنا کمربند پھاڑ کر باندھا اور دربار نبوت سے ذات النطاقین کا خطاب پایا۔ حضرت ابو بکر صدیق نے پہلے ہی سے دو اونٹ تیار کر لئے تھے۔ ایک آنحضرت کی خدمت میں پیش کیا اور ایک پرخود سوار ہوئے ۔ اسی طرح نبیؑ صدیقؓ کا مختصر قافلہ راہی مدینہ ہوا۔
اس قافلہ کی پہلی منزل غار ثور تھی ۔ حضرت ابوبکر نے غار میں پہلے داخل ہو کر اس کو درست کیا جو سوراخ اور بھٹ نظر آئے ان کو بند کیا، پھر انحضرت سے اندر تشریف لانے کیلئے عرض کیا۔ آپ اس غار میں داخل ہوئے اور اپنے رفیق مونس کے زانو پر سر مبارک رکھ کر مشغول استراحت ہو گئے ۔ اتفاقا اسی حالت میں ایک سوراخ سے جو بند ہونے سے رہ گیا تھا ایک زہریلے سانپ نے سر نکالا لیکن اس خادم جانثار نے اپنے آقا کی راحت میں خلل انداز ہونا گوارہ نہ کیا اور خود اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر اس پر پاؤں رکھ دیا۔ سانپ نے کاٹ لیا زہر اثر کرنے لگا درد و کرب کے باعث آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے لیکن اس وفا شعار رفیق نے اپنے جسم کو حرکت نہ دی کہ اس سے خواب راحت میں خلل اندازی ہوگی ۔ اتفاقا آنسو کا ایک قطره ڈھلک کر آنحضرت کے چہرۂ انور پر دیکھا جس سے حضور بیدار ہو گئے اور اپنے خاص نمگسارکو بے چین دیکھ کر فرمایا ابو بکر کیا ہے؟ عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں سانپ نے کاٹ لیا۔ آنحضرت نے اسی وقت اس مقام پر اپنا لعاب دہن لگا دیا۔ اس تریاق سے زہر کا اثر دور ہو گیا ۔
حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ کو ہدایت کر دی تھی کہ دن کو مکہ میں جو واقعات پیش آئیں رات کو ہمارے پاس آکر ان کی اطلاع کرتے رہنا اسی طرح اپنے غلام "عامر بن فہیرہ کو حکم دیا تھا کہ مکہ کی چراگاہ میں بکریاں چرائیں اور رات کے وقت غار کے پاس لے لیں ۔ چنانچہ صبح کے وقت جب حضرت عبد الله واپس آتے تو حضرت عامر بن فہیرہ ان کے نشان قدم پر بکریاں لاتے تاکہ نشان مٹ جائے اور کسی کو شبہہ نہ ہو ۔ رات کے وقت انہیں بکریوں کا تازہ دودھ غذا کے کام آتا۔ غرض تین دن اور تین راتیں اسی حالت میں بسر ہوئیں اور یہ تمام کارروائی اس احتیاط سے عمل میں آتی تھی کہ قریش کو ذرا بھی شبہ نہ ہوا۔
اس عرصہ میں کفار بھی اپنی کوششوں سے غافل نہ تھے جس روز آنخضرت نے ہجرت فرمائی ہے اسی روز قریش کی مجلس ملی سے آپ کے قتل کا فتوی صادر ہو چکا تھا، اور تمام ضروری تدبیریں عمل میں آچکی تھیں ۔ چنانچہ ابوجہل وغیرہ نے اس روز رات بھر کا شانہ اقدس کا محاصره رکھا لیکن جب وقت معین پر خواب گاہ میں داخل ہوئے تو وہ گوہر مقصود سے خالی تھا۔ وہاں سے حضرت ابو بکر صدیق کے دولت کدہ پر گئے اور حضرت اسماء سے ان کے والد کو دریافت کیا۔ انہوں نے لاعلمی ظاہر کی تو ابوجہل نے غضبناک ہو کر زور سے ایک طمانچہ مارا۔ اور اسے یقین ہو گیا کہ یہ دونوں ایک ساتھ یہاں سے روانہ ہو گئے ۔