موبائل فون کے فوائد اور نقصانات پر اشعار - موبائل فون کے نقصانات پر خط
موبائل کا غلط استعمال اور مسلم معاشرہ دیوبند کے قریب ایک گاؤں میں ایک باعزت اور معاشرتی لحاظ سے اعلٰی مسلم خاندان آباد ہے۔ نازوں میں پلی بڑھی اس گھرانے کی ایک لڑکی بڑی ہوئی تو والدین نے ایک موبائل دے دیا کہ "بچی" کی آرزو بھی پوری ہوجائے اور اپنا اسٹیٹس بھی برقرار رہے۔ ورنہ کب کون پِچھڑے پن کا طعنہ دیدے کیا خبر!! موبائل ہاتھ آیا تو اپنے ساتھ ہزار برائیاں بھی ساتھ لایا۔ دہرادون کے ایک ہندو دلت (سینی برادری کے) لڑکے سے فون پر بات چیت شروع ہوئی اور بات وعدوں قسموں تک جا پہنچی۔ عورتوں کو یوں ہی ناقصات العقل نہیں کہا جاتا، وہ عموماً جذبات میں بالکل اندھی ہوجاتی ہیں، لڑکی کو معلوم تھا کہ اس تعلق کا کوئی مستقبل نہیں، اس لیے از خود لڑکے سے کہا کہ اسے گھر سے بھگا لے جائے۔ لڑکا ایک رات خاموشی سے سواری لے کر آیا اور لڑکی کو لے کر فرار ہو گیا۔ گھر والوں کو معلوم ہوا تو سر پر آسمان پھٹ پڑا ، ہر طرف لوگ دوڑائے گئے مگر نتیجہ صفر رہا۔ اب انہیں یاد آیا کہ ان کی لڑکی رات رات بھر چیٹنگ پر مشغول رہتی تھی، موقع بے موقع اس کا فون بجتا رہتا تھا جسے سنتے ہی وہ اپنے کمرے کا رخ کر لیتی تھی۔ مگر چونکہ پورا گھرانہ "پیدائشی مسلمان" تھا، اخلاق و تہذیب "میراث" میں مل گئے تھے اس لیے والدین کو کبھی کوئی اندیشہ یا غلط خیال ہی نہیں آیا۔ اب چار وناچار پولیس سے رابطہ کیا گیا اور جلد از جلد لڑکی کی بازیابی کے لئے معقول رقم ادا کی گئی۔ پیسے جیب میں آئے تو پولیس بھی حرکت میں آ گئی، لڑکی کا فون ٹریک کیا گیا اور لوکیشن معلوم ہوگئی۔ قصہ مختصر لڑکی، اس کا شناسہ، ان کے ساتھ ہندوؤں کی ایک اچھی خاصی جماعت اور لڑکی کے گھر والوں میں سے کچھ لوگ تھانہ میں جمع ہوگئے۔ لڑکی نے تھانہ میں صاف کہہ دیا کہ اس کا اپنے ماں باپ سے کوئی تعلق نہیں، وہ ایک مندر میں لڑکے سے شادی کرچکی ہے، لڑکی مکمل طور پر ہندوانہ حلیہ میں تھی، جسم ساڑی میں ملبوس، مانگ میں سندور، گلے میں منگل سوتر. لڑکی کو قانونی طور پر بالغ ہونے میں ابھی تین ماہ باقی تھے اس لیے پولیس نے اسے گھر والوں کے ساتھ جانے کا پابند کیا۔ لیکن ہندوؤں کی جماعت اور لڑکی اپنی بات پر اڑے رہے، لڑکی کا کہنا تھا کہ گھر والوں سے اس کی جان کو سخت خطرہ ہے، وہ اگر فی الوقت لڑکے کے ساتھ رہنے کی مجاز نہیں تو اسے آئندہ تین ماہ کسی دھرم شالا یا حقوقِ نسواں کا کام کرنے والی کسی تنظیم کے ساتھ رہنے کا حق دیا جائے۔ آخر کار یہی فیصلہ ہوا. ماں باپ کا رو رو کر برا حال تھا، اس لڑکی کے بھائی بہن اور دیگر رشتے دار بھی غم سے نڈھال تھے لیکن لڑکی کے ذہن پر عشق کا جنون سوار تھا اس کی طرف سے ذرہ برابر نرمی دیکھنے میں نہیں آئی۔یہ واقعہ تقریباً پانچ چھ ماہ قبل پیش آیا ، اسی وقت اس پر لکھنے کا ارادہ تھا لیکن مصروفیت آڑے آتی رہی۔ پھر اچانک پندرہ روز قبل خاص دیوبند میں اسی نوعیت کا مگر اس سے زیادہ بھیانک اور تکیلف دہ واقعہ پیش آیا تو دل و دماغ میں آگ سی لگ گئی۔ غم و غصہ کی ترکیب کئی بار پڑھی تھی اور اپنی تحریروں میں لکھی بھی، لیکن ان دو کیفیتوں کا انسان بیک وقت کس طرح شکار ہوتا ہے اس کا تلخ تجربہ ان ہی مواقع پر ہوا ۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہے جس میں اس قسم کے واقعات پیش نہ آتے ہوں، ہم ان واقعات کو سنتے، پڑھتے اور اپنی مجلسوں میں ان پر تبصرے کرتے ہیں۔ لیکن جب بات اس بےحیائی و بےدینی کو روکنے کی آتی ہے تو کوئی عملی اقدام کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ بچوں کی تربیت کے تعلق سے آج کل کے ماں باپ جس قدر لاپرواہ بلکہ مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ بیشتر والدین نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اولاد کو پیسے کما کر دے دینا، یا اس کی ہر چھوٹی بڑی خواہش کو پوری کرتے رہنا بس یہی ان کی ذمہ داری ہے. موبائل کے حوالے سے سختی و نگرانی یا (ہو سکے تو) مکمل پابندی کی بات ہم نے خود کئی لوگوں سے کی اور اپنی حد تک اس کے نفع - نقصان، دونوں پہلوؤں کو سمجھانے کی کوشش کی تو اچھے خاصے "دین دار" اور پڑھے لکھے افراد نے ہمیں یہ جواب دیا کہ مولانا یہ چودہ سو سال پہلے کا اسلام اپنے پاس رکھو، زمانہ برق رفتاری سے ترقی کررہا ہے مگر تم لوگوں کا ذہن آج بھی ماضی کے سائے میں جی رہا ہے۔ جہاں تک ہم نے دیکھا اور سمجھا ہے مسلم معاشرہ عمومی سطح پر انتہائی لاپرواہ، غیرت و دین داری سے دور اور خوفِ خدا سے خالی ہوچکا ہے۔ خواب اور تمنا تو بظاہر ہر مسلمان کی یہی ہے کہ پوری دنیا میں اسلامی حکومت قائم ہوجائے لیکن ہم اپنے گھروں میں بھی اسلام کا نفاذ اب تک نہیں کرسکے۔ نصیحت کیجیے تو طعنے اور گالیاں سننے کو ملتی ہیں، خاموش رہئے تو ضمیر کی ملامت مارے ڈالتی ہے۔ اس دلخراش صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟؟ ا صلاحِ معاشرہ بلاشبہ علماء کی ذمہ داریوں کا ایک حصہ ہے لیکن ہر فرد اپنی ذات، اپنے گھر، اپنے اہل و عیال کی نگرانی اور اصلاح کا از خود ذمہ دار ہے۔ ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور خود سے سوال کرنا چاہئے کہ ہم نے اپنی یہ ذمہ داری کس حد تک پوری کی؟؟؟