میں اپنی ماں کی ناجائز اولاد ہوں
ناجائز اولاد کی کہانی
سب کہتے ہیں کہ تیری محبت کردار ہے اور تو ناجائز اولاد ہے۔ میں جب ماں سے اپنے باپ کے بارے میں پوچھتا تو وہ خبرا جاتی مجھے اپنی ماں سے نفرت ہونے لگی تھی جو ہی شادی \کی ماں کو نوکریانی بنا دیا۔ میری بیوی ماں پر ظلم کرتی اور گالیاں دیتی لیکن میں کچھ نہ کہتا۔ جب بیوی نے بتایا کہ روز کمرے کی کھڑکی سے۔کچھ نوجوان لڑکی تمہاری ماں سے ملنے آتے ہیں۔ اور وہ ابھی بھی کمرے میں ہیں۔ میں غصے میں دروازہ کھولتا ہوں۔ ماں کے کمرے میں گیا۔ تو شرم سے جسم لرز اٹھا۔ کیونکہ میں نے گھر آتے ہی اماں کو آوازیں دینا شروع کر دیں۔ میری اس طرح چلانے پر۔ وہاں جلدی سے کمرے سے باہر آئی۔ پریشانی ان کے چہرے سے جھلک رہی تھی۔ وہ بری۔ بیٹا کیا ہوا تو کیوں ایسے چلا رہے کیا ہو گیا ہے سب خیر تو ہے نا۔ میں بولا چلناؤ نہیں تو اور کیا کروں۔ تم نے تو مجھے گھر سے باہر نکلنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔ تم مجھے میرے باپ کے بارے میں کیوں نہیں بتا دیتی۔ مجھ سے میری شناخت کیوں چھپا رہی ہو؟ ؟ میں باہر منہ چھپاتا پھرتا ہوں جب بھی باہر نکلتا ہوں تو لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تم ناجائز اولاد ہو تو ماہ پوری لوگوں کا کیا ہے؟ لوگ تو کچھ بھی کہیں گے لوگوں کی باتوں پر کان متھرا کرو اگر میں لوگوں کی سنتی ہوتی تو شاید آج زندہ ہی نہ ہوتی جب سے میں نے ہوس سنبھالا ہے۔ میں ہر چیز کے لیے ترسا ہوں۔ یہاں تک کہ باپ کی محبت، ہر شفقت کے لئے بھی۔ مجھے تو یہ تک نہیں معلوم تھا کہ میرا باپ کون ہے اور کہاں پر ہے؟ میں اپنے باپ کو دیکھنا چاہتا تھا۔ اس سے ملنا چاہتا تھا جب میں گلی محلے کے بچوں کو اپنے باپ کے ساتھ لاٹھ پیار کرتے ہوئے دیکھتا تو میرے دل میں بھی حسرت پیدا ہوتی۔ کیا اے کاش میرا باپ بھی اس طرح میرے ناز نقرے اٹھاتا لیکن یہ میری حسرتی رہی۔ 1 دن میں بہت بیمار ہو گیا۔ماں 2 دن تک مجھے ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتی رہی۔ لیکن میرا بخار تھا کہ اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ تھا۔ میں اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹا ہوا تھا۔ ماں میرا سر دبا رہی تھی اور ساتھ رو رہی تھی۔ مجھ سے ماں کر رونا دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ تو میں بولا۔ تم فکر نہ کرو۔ مجھے کچھ نہیں ہوگا۔ میں جلد ٹھیک ہو جاؤں گا یہ میرا بچپن کا پیار تھا جو میں اپنی ماں سے کرتا تھا۔ لیکن میں جیسے جیسے بڑا ہوا۔ لوگوں کی طنزیہ باتوں نے مجھے بدل کر رکھ دیا۔ کوئی کہتا تو ناجائز اولاد ہے تو کوئی۔ کہتا ہے کہ تری ماں بد کردار ہے۔ یہ سب سن کر مجھے ماں سے نفرت ہونے لگی اور یہ نفرت اسد تک ہو گئی تھی۔
کہ میرا گھر آنے کو بھی دل نہیں کرتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود بھی۔ میری ماں کی محبت کم نہ ہوئی۔ میں نے پانچویں تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسکول چھوڑ دیا۔ جب میں تھوڑا جوان ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ میں نے پڑھائی چھوڑ کر بہت بڑی غلطی کردی کیونکہ اب نہ تو میرے پاس کوئی ڈگری تھی۔ اور نہ ہی کوئی کاروبار تھا۔ میں اپنی آنے والی زندگی کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا۔ تھا۔ مجھے پریشان دیکھ کر 1 دن میں مجھ سے بری نوید تو کچھ پریشان لگ رہا ہے تو میں تلخی سے بولا میری۔ سب سے بڑی پریشانی تو تم ہو ماں۔ خاموش ہو۔ ماں یہ سن کر خاموش ہو گئی۔ میں بولا۔ مجھے کاروبار کے لئے کچھ پیسے چاہیے لیکن کوئی بھی مجھے پیسے دینے کے لئے تیار نہیں ہے کیونکہ میں تمہاری ناجائز اولاد جو ہوں۔ اگر آج میرا باپ میرے ساتھ ہوتا تو میں کبھی بھی ایسے دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلاتا۔ یہ سننے کے بعد ماں بودی۔ تم ایک منٹ یہی ٹھہرو۔ میں ابھی آتی ہوں۔ جب ماں واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں کپڑے کی ایک پو تھی، نہیں جانے پوٹ لی میں کیا تھا؟ ماں میری طرف بڑھاتے ہوئے بولی، نوید یہ رکھ لیں، ہوسکتا ہے کہ اس سے تیری پریشانی کچھ کم ہو جائے۔ ویسے بھی۔ ابھی میری کسی کام کی نہیں ہے۔ یہ تو میں نے تیری دلہن کے لیے رکھا تھا۔ لیکن اب چونکہ تمہیں اس کی ضرورت ہے۔ تو تم اسے بیچ کر اپنا کاروبار کرلو۔ کاروبار چل پڑا۔ تو اپنی دلہن کے لئے نیا زیور بنوا لینا میں نے خاموشی سے و بوٹلی پکڑی اور گھر سے نکل گیا۔ وہ زیبور بیچ کر میں نے کچھ سامان لیا۔ اور ایک چھوٹی سی کاسمیٹک کی دکان کھول دی۔ پتہ نہیں وہ میری محنت کا نتیجہ تھا یا پھر میری ماں کی دعاؤں کا اثر تھا۔ میری دکان میں ہر وقت گاہکوں کا رش رہتا۔ میری اس چھوٹی سی دکانیں ایک بہت بڑی دکان کی شکل اختیار کر لی۔ 1 دن جب میں تھکا ہارا دکان سے گھر آیا ہوں۔ تو ماں بری نوید وٹاب تو ماشاءاللہ تمہارا کاروبار بھی چل پڑا ہے۔ اور شادی۔ کی عمر کو بھی پہنچ گئے ہو۔ میں بولا۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں اور جب مجھے شادی کرنی ہوگی میں کہہ لوں گا۔ میں جانتا ہوں کہ تمہیں میری کتنی فکر ہے۔ میری ایسی باتیں سن کر۔ام پ بک سے خاموش ہو جاتی میرا سارا دن دکان پر گزرتا تھا رات کو جب میں واپس گھر آتا تو اماں سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتا تھا جس کا اماں کو بہت دکھ تھا۔ دن بہ دن مجھے ماں سے نفرت ہوتی جا رہی تھی۔ 1 دن رات کو جب میں دکان سے واپس آیا تو ماں میرے لئے کھانا لے کر آئی میں گرم مزاری سے بولا مجھے نہیں کھانا تو ماں بولئیے نوید تجھے ہو کیا گیا ہے کیوں مجھ سے اتنا اکڑا اکڑا سے رہتا ہے تو میں بولا میں ایسے ہی رہوں گا۔
جب تک تو مجھے میرے باپ کے بارے میں نہیں بتا دیتی۔ یہ میرا باپ کون ہے؟ یہ سن کر ماں گھبرا جاتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ مجھے ماں سے نفرت ہو گئی تھی۔ اب تو مجھے بھی ایسے ہی لگنے لگا تھا۔ کہ لوگوں کو کہا سچ ہے واقعی میں میں اپنی ماں کی ناجائز اولاد ہوں۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو میری ماں مجھے میرے باپ کے بارے میں ضرور بتاتی کیونکہ میں اپنے۔بارے میں جاننا چاہتا تھا گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ مجھے ایک لڑکی پسند آ گئی۔ جو کہ اکثر میری دکان پر کاسمیٹکس کا سامان لینے آیا کرتی تھی۔ اس کا نام صائمہ تھا، صائمہ مجھے پہلی نظر میں ہی اچھی لگنے لگی تھی۔ اور میں آپ سے شادی کرنا چاہتا۔ تھا۔ صائمہ میرے ارادے سے بالکل بے خبر تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی۔ میں اسے پسند کرنے لگا ہوں۔ اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔میں نے صائمہ کے گھر کا پتہ لگوایا کیونکہ میں اس کے گھر والوں سے ملنا