ایک دفعہ مکیش امبانی کے پاس ایک غریب کسان آیا اور کہنے لگا کہ میں بہت غریب ۔۔۔

Story Or Poetry


ایک دفعہ مکیش امبانی کے پاس ایک غریب کسان آیا اور کہنے لگا کہ میں بہت غریب 

مکیش امبانی کے پاس ایک غریب کسان آیا
ایک دفعہ مکیش امبانی اپنے تخت پر بیٹھے ہوئے تھے۔ تمام وزیر مشیر دربار میں موجود تھے۔ دربار میں خوشی کا سامان چل رہا۔ تھا۔ اتنے میں مکیش امبانی کے ایک وزیر مکیش امبانی کے سامنے اٹھے اور سر جھکائے کہنے لگے میرے گھر کوہچی گاؤں میں ہیں۔ اس گاؤں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام نعتوں سے نوازا ہے۔ ہمارے گاؤں میں بڑے بڑے وزیر امیر ذمے دار اپنا اچھا وقت گزارنے کے لیے آتے ہیں۔
کیونکہ اس جگہ کو اللہ تعالی نے قدرتی حسن سے مالا مال کیا ہے اور ہر وقت یہاں پر لوگوں کی آمدورفت رہتی ہے اور میری بس یہی خواہش ہے کہ آپ ہمارے گاؤں میں چند دن گزارنے کے لیے آ جائیں اور ہمیں میزبانی کا شرف بخشیں۔ جب مکیش امبانی نے اپنے وزیر کی شفقت اور محبت کو دیکھا۔تو اس وزیر کو انکار نہیں کر سکے ۔تو پھر درباریوں نے کہا، ہم آپ کے پاس پہنچ جائیں گے۔ جو مکیش امبانی نے اس وزیر کی دعوت کو قبول کر لیا تو تمام درباری بڑے خوش ہو گئے۔ کیونکہ مکیش امبانی بڑے بڑے بادشاہوں کی دعوتوں سے انکار کردیا۔ تھا۔ وزیر مکیش امبانی سے زیادہ لے کر وہاں سے چلا گیا تاکہ وہ سلطان قسط اقبال کے لیے تیاریاں کر سکے۔
مکیش امبانی نے رات کو کمرے میں بلوایا اور حکم دیا کہ اپنے سپاہیوں کا دستہ بھیجوں جو محل سے لے کر وضع کے گاؤں تک سارے راستے کا معائنہ کریں تاکہ راستے میں کوئی گھاٹ لگا کر دشمن ہم پر حملہ نہ کرتے ہو۔ صبح چند سپاہیوں کو دستہ اس رستے کی طرف روانہ کر دیا گیا۔ انہیں حکم دیا گیا کہ اس راستے سے ایک ایک چپّے کو چھان مارو اور جا کر پتہ لگاؤ کہ کہیں راستے میں میکس امبانی پر حملہ ہونے کے لیے کوئی چال تو نہیں چل رہا۔چند دنوں کی بات سپاہی واپس لوٹے اور کہا حضور تقریبا سے لے کر گاؤں تک 400 مل کا فاصلہ ہے اور تقریبا 4 دن وہاں پہنچنے میں لگ جائیں گے۔ لیکن راستے میں نہ ہی کوئی جنگل ہے اور نہ ہی کوئی جھاڑیاں ہیں بلکہ ہر طرف کھیت ہی کھیت ہے۔ کوئی ایسی مشکوک جگہ نہیں ہے جہاں سلطان آپ پر حملہ ہو سکے۔
مکیش امبانی کو ان کے سسٹر نے ساری معلومات دی تھیں لیکن مکیش امبانی پھر بھی مطمئن نہیں ہوئے کیونکہ سلطان اس بار ناصر خود جارہے تھے بلکہ اپنے تمام زیرو کے ساتھ اس وزیر کی دعوت پر جانے والے تھے لہذا مکیش امبانی کو ڈر تھا کہ کہیں اس کے سارے زیرو اور درباریاں پر حملہ نا ہو جائے۔ اس لیے مکیش امبانی نے اگلی صبح 20 بدل کر اور ایک کسان کے 20 میں روانہ ہو گئے تاکہ راستے کا معائنہ کر سکیں۔ چلتے چلتے مکیش امبانی کا گزر گاؤں میں ہوا۔ مکیش امبانی اس گاؤں سے گزرنے۔لگے تو اچانک مکیش امبانی کی نظر ایک کسان پر پڑی۔ مکیش امبانی کو اس کسان کی افسینے اور محنت کو دیکھ کر بڑا درس آیا اور مکیش امبانی بھی تھک چکے تھے۔
لہذا مکیش امبانی اپنے گھوڑے سے اترے اور اپنے گھوڑے کو ایک درخت کے سائے کے نیچے باندھ دیا اور کسان سے ملنے کے لیے چلے گئے۔ لیکن جب مکیش امبانی اس کسان کے قریب گئے تو کسان درخت کے ساتھ سہارا لیے کھڑا تھا۔ مکیش امبانی کی طرف پیٹ کر کے کچھ بول رہا۔ تھا۔ مکیش امبانی بڑا حیران ہوا کہ یہاں صرف ایک کسان ہے۔پھر باتیں کس سے کر رہا ہے؟۔ لیکن جب مکیش کے گرین گیا تو کسان ہاتھ اٹھائے۔ اللہ سے دعا مانگ رہا۔ تھا۔ کہ اے اللہ۔ میں نے جوانی سے لے کر بڑھاپے تک ساری زندگی تنسیوں کی ملازمت کے لیے گزار دی۔ میرے پاس زمین کا ایک ٹکڑا نہیں ہے۔ جس میں میں اپنی فصل اگھا سکوں اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکوں۔ میری بھی کچھ خواہش ہے میرے بھی دل میں کوئی حسرتے ہیں تاکہ وہ میں پوری کر سکوں، اپنی زندگی پر لطف گزار ہو سکوں جب یہ بات مکیش شمبی میں سنی تم مکیش لمبائی کو بڑا افسوس ہوا، اتنے میں مکیش واپس لوٹے تو دیکھا کہ اس رستے سے سپاہی گزر رہے ہیں اور وہ یہ اعلان کر رہے تھے کہ اس رستے سے فلاندیل مکیش امبانی گزرنے والا ہے۔
یہ ہضم مکیش امبانی کا استقبال کرنے کے لئے تمام لوگوں کو فلاں دن سب باندھ کر کھڑے ہو جانا ہے۔ یہ دیکھ کر مکیش امنی بڑا حیران ہوا کہ میں نے تو اپنے سپاہیوں کو اپنے استقبال کے لیے حکم نہیں دیا۔ لیکن جب مکیش امبانی کی نظریں سپاہیوں پر پڑی تو مکیش امبانی کو پتا چلا کہ وہ سپاہی تو و زیر کے ہیں۔ سلطان بڑے خوش ہوئے۔ مکیش امانی جب وہاں سے واپس جانے لگے تو وہ کسان کہنے لگا کہ اللہ نے میری سن لی۔ اللہ نے میری سن لی اللہ نے مکیش امبانی کو میرے پاس وسیلہ بنا کر بھیج رہا ہے۔ یہ سن کر مکیش ایمانی بڑا حیران ہوا اور اس کی باتیں سننے کے لیے وہیں پر رک گیا۔ پھر وہ اقسام کہنے لگا کہ جب مکیش امبانی یہاں سے گزرے گا تو میں اس کے سامنے حاضر ہو جاؤں گا اور اسے اپنی خواہش کے بارے میں بتاؤں گا۔اور وہ مجھے یقین ہے کہ وہ میری مدد ضرور کرے گا اور 80 طرح میرے دن بدل جائیں۔ گے۔ مقررہ دن کا وقت آگیا۔ تمام کسان مکیش امبانی کی استغبال کے لیے اس رستے پر کھڑے ہوگئے۔ مکیش امبانی روانہ ہو گیا۔ گزرتے گزرے تھے۔ مکیش ربانی جب ان فصلوں سے گزرنے لگے تو اقسام نے مکیش امبانی کو خوب استغ پال کیا۔ اچانک مکیش امبانی کی نظر اس قسم پر پڑی اور وہ اقسام بھاگتا ہوا مکہش امبانی کے آگے آگیا۔
حضور میری ایک بات سن لیں۔ مکیش امبانی صاحب کچھ پہلے سے ہی جانتے ہیں کہ کیا کہے گا۔ مکیش غبانی نے کہا بتاؤ تم نے کیا کہنا ہے اس نے کہا میں نے ساری زندگی ملازمت کی لیکن میرے پاس اپنا ایک زمین کا ٹکڑا بھی نہیں ہے۔ میرے ایک چھوٹی سی زمین کا ٹکڑا بھی نہیں ہے جس پر میں اپنا گھر بناؤں گا۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !