آج کی کہانی۔یونیورسٹی کے قریب قدرتی سنسان سڑک سے۔جب بھی میرا گزر ہوتا تو میری روح کانپ جاتی تھی۔ ۔ میں گھر سے پیدل یونیورسٹی آتی اور پیدل ہی یونیورسٹی سے واپس گھر جانا ہوتا تھا لیکن راستہ اتنا سنسان تھا کہ ایک دفعہ میری عقل ٹھکانے آجاتی۔یہ سوچ کر کے مجھے اکیلے گھر جانا ہے۔ صبح آتے تو اتنا مسئلہ نہیں ہوتا تھا لیکن دوپہر میں گھر واپس جاتے ہوئے ہر سڑک سنسان لگتی تھی۔ اور مجھے بہت زیادہ گھبراہٹ ہوتی تھی۔ حالات بھی ٹھیک نہ تھے۔ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اکثر اماں سے کہتی کہ مجھے کوئی رکشے والا ہی لگوا دیں۔ لیکن۔یہ حالات بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔ تھے۔ یونیورسٹی سے واپسی پر آج بھی وہ باہر کھڑا میرا انتظار کررہا تھا۔ میں اسے آنکھیں چراتی تیزی سے رکشے کی تلاش میں جانے لگی۔ مجھے دور دور تک کوئی رکشہ نظر نہیں آرہا۔ تھا۔ویسے تو جو حالات تھے میں رکشے کا کرایہ بھی ادا نہیں کر سکتی تھی۔ لیکن میری مجبوری تھی۔ اگر کوئی رکشا مل جاتا تو میں اس لڑکی کی نگاہوں سے بچتے ہوئے ٹھیک ٹھاک اپنے گھر پہنچ جانا چاہتی تھی لیکن دور دور تک کوئی رکشہ نظر نہیں آرہا۔ تھا۔ میں تیز تیز قدم چلنے لگی کہ اتنے میں میرے پیچھے آکر ایک گاڑی رکی ۔ میں نے جیسے ہی پیچھے مڑ کر دیکھا تو گاڑی میں عمر تھا۔ عمر کو دیکھ کر میری جان ہی نکل گئی تھی۔
میں تو نظریں بچاتے ہوئے تیز تیز قدم سے چلتی آرہی تھی۔ مجھے کیا خبر تھی کہ عمر نے مجھے پھر دیکھ لیا ہوگا۔عمر آ کر مسلسل گاڑی کا ہون دینے لگا۔ میں اپنا منہ چھپاتے ہوئے تیز تیز جلتی رہی۔ وہ میرے ساتھ ساتھ اپنی گاڑی چلاتا رہا۔میں بہت زیادہ گھبرا گئی تھی۔ میں نے اس کی طرف بالکل بھی نہیں دیکھا۔ تھا۔ نظریں جھکائے میں خاموشی سے چلتی جا رہی تھی۔ لیکن وہ بھی اعلیٰ درجے کی ڈھٹائی پر تھا۔ مسلسل مجھے تنگ کر رہا تھا۔ پھر ایک سنسان راستہ دیکھ کر اس نے میرے آگے گاڑی روک دی اور گاڑی سے نیچے اتر آیا اور مجھ سے زبردستتی کرنے لگا۔ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے گاڑی میں بٹھانے لگا۔ میں بہت زیادہ ڈر گئی تھی۔ گھبراہٹ کی وجہ سے میری سانس رکنے لگی تھی۔ پہلے میں نے سوچا کہ چیخ کر لوگوں کو اکٹھا کر لوں لیکن اس میں بھی میری ہی رسوائی تھی۔
اپنی رسائی کے ڈر سے میں نے ایسا نہ کیا۔ میں نے اسے زبردستی اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوئے کہا کہ خبردار آج کے بعد مجھے ہاتھ بھی لگایا۔کتنی دفعہ تم سے بولوں کہ مجھے تم سے کسی قسم کا کوئی رشتہ نہیں رکھنا۔ پھر بھی تم پر اثر ہی نہیں ہوتا۔ پتہ نہیں کس ڈھیٹھ مٹی کے بنے ہوئے ہو؟۔میرے منہ میں جو کچھ آ رہا تھا میں غصے میں بولے جا رہی تھی۔ وہ میری غصے میں بولی ساری باتیں برداشت کر رہا تھا۔ لیکن میرا ہاتھ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ تھا۔ اتنے میں ارد گرد کے لوگ اکھٹے ہونے لگے۔ مجھے اس بات کا ڈر تھا اسے اپنی عزت کا تو خیال نہیں تھا۔ ساتھ ساتھ میری بھی عزت کا کوئی احساس نہیں۔ تھا۔میں بہت زیادہ پریشان تھی۔
میں نے اپنا منہ تھکا ہوا تھا۔ لوگوں نے آ کر جیسے ہی مجھ سے پوچھا تو میں نے کہہ دیا۔ میں سے نہیں جانتی۔ لیکن یہ میرے ساتھ زبردستی کر رہا ہے۔لوگوں نے جیسے ہی اس کی گریبان کی طرف ہاتھ بڑھایا وہ جلدی سے گاڑی میں بیٹھا اور نکل گیا۔مجھے بہت خوف آ رہا تھا۔ میں پریشان تھی ۔ایک قدم بھی چلنا میرے لئے محال ہورہا تھا۔ میری حالت غیر ہوگئی تھی۔
میں یہ سوچنے لگی کہ میں گھر اس حالت میں جاؤں گی تو اماں اور بھائی میرے بارے میں کیا سوچیں گے۔ان کا بھی ڈر مجھے مارے جا رہا تھا میں فوت پاتھ پر کچھ دیر کے لئے سانس لینے کے لیے بیٹھ گئی۔ میرا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ تھا۔ اتنے میں ایک رکشا آیا۔ میں نے جلدی سے رکشے والے کو ہاتھ کےاشارے سے روکا اور اس میں بیٹھ کر اپنے گھر کی طرف چل دی۔ رکشے میں بیٹھنے کے بعد کافی دیر تک میرے اوپر عمر کی دہشت بنی رہی۔ میں دل میں دعائیں کر رہی تھیں کہ میرا سانس اور دھڑکن بالکل ٹھیک ہو جائے۔اگر میں اس حال میں اماں کے سامنے گئی تو میری غلطی نہ ہوتے ہوئے بھی میں پکڑی جاؤں گی اور اماں اور بھائی کو شک ہو جائے گا کہ میرے ساتھ کوئی نہ کوئی ایسا معاملہ چل رہا۔ ہے۔میں نے سوچا تھا کہ میں بھائی کو عمر کی شکایت لگا دوں لیکن پھر ہم لوگ غریب تھے اور عمر بے تحاشہ امیر میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ میرے بھائی کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی دشمنی نکالیں۔
اماں ابا کا واحد سہارا میرا بھائی ہی تھا میں اپنی وجہ سے بھائی کی جان کسی بھی خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔ اس لیے آج تک میں نے عمر کا ذکر گھر میں نہیں کیا تھا۔
انہی سوچوں میں گھر آ گیا۔ رکشے والے نے جیسے ہی مجھے دروازے کے آگے اتارا تو پیسے دینے کے لئے میرے پرس میں ایک بھی روپیہ نہ تھا۔ میں نے رکشے والے کو دروازے پر ہی کھڑے رہنے کو کہا اور گھر کے اندر جاتے ہی میں نے اماں سے کہا کہ مجھے ₹50 چاہیے۔ اماں کے پاس ₹100 ہی تھا۔ اماں نے مجھ سے کہا کہ اس کی تو میں نے ہنڈیا لا کر کچھ پکانا۔ ہے۔