چکوال کی قدیم تاریخ کی کہانی کیا ہے
چکوال
یہ وہ واحد شہر اور ضلع ہے جس کہ متعلق آپ کوٸی حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے اسے جھیلوں کی سرزمین کہیں گے سلسلہ نمک کہیں گے فوسلز کی حیرت انگیز دنیا کوہ کاف کہیں گے قلعوں کا حیرت کدہ کہیں گے پوٹھوہاری جنت جو بھی کہیں اس جنت نما خطہ ارض پہ کوٸی ایک لقب پورا نہیں اترتا اس خطہ کا چپہ چپہ حیرت اور سحر سے بھرا ہوا ہے یہاں موجود قلعہ جات مندر قبل ازمسیح یونیورسٹی نمک جھیلیں ہزاروں سال پہلے ملنے والے فوسلز اپنی ایک لمبی اور انمٹ داستان سناتے ہیں قبل ازمیسح آباد ہونے والا یہ علاقہ آج پُررونق شہر ہے لیکن اپنی تاریخی داستان کا آج بھی ضامن ہے یہاں سے ملنے والے بہت سے فوسلز جن کو مختلف اوقات میں جانچا گیا لیکن ابھی تک حکومتی سطح پہ ان کو پزیراٸی نہیں مل سکی جن پہ کام ہونا بہت لازمی ہے کیونکہ ان فوسلز کہ بارے یقین کیا جارہا ہے کہ یہ صدیوں نہیں ہزاروں لاکھوں سال پرانے ہیں ان فوسلز کے بارے پوسٹ پیج پہ پہلے سے تفصیلی طور پہ موجود ہے تاریخ دانوں کے مطابق یہاں پہلے سمندر موجود تھا جس کا نام تاریخ دان بحیرہ ٹیتھس لیتے ہیں جس کا ثبوت یہ فوسلز ہیں جن میں آبی جانوروں کہ فوسلز موجود ہیں ایسا ہی ایک فوسلز جسے پاکی سڈ کا نام دیا گیا جو کہ اٹک کہ علاقے کالا چٹا پہاڑ کے قریبی پانی سے ملا ہے جس کی پوسٹ پیج پہ موجود ہے خیال کیا جاتا ہے یہ بلینز سال پہلے ان علاقوں میں موجود تھا ایسے ہی فوسلز یہاں سے بھی ملے ہیں چکوال میں بلین سال پہلے کے فوسلز ڈھوک بن امیر خاتون ڈھریالہ اور بھی کچھ علاقوں سے ملے ہیں تاریخی حوالہ جات سے پتہ چلتا ہے 25 سو سال سے پہلے ایران کے راجہ کورش نے پوٹھوہار کو بھی اپنی سلطنت کا حصہ بنایا دوسرا تاریخی حوالہ یہ بھی ہے 325 قبل از مسیح جب سکندر اعظم یہاں حملہ آور ہوا جس کا مقابلہ راجہ پورس سے ہوا اسی سکندر اعظم کے گھوڑوں نے اس علاقے میں نمک کھوجا جو کہ یہاں پتھروں کو چاٹتے تھے سکندر کے بعد یہ علاقہ چندر گپت موریا کے زیر تسلط رہا اس کے بعد اس کا بیٹا بندوسار اور پھر اُس کا بیٹا اشوک اس سلطنت کا حکمران بنا یہ سب بدھ مت کے پیروکار تھے اس علاقے کے قدیم ہونے کا ثبوت دریا سواں کے کنارے آباد آبادیوں کے آثار بھی ہیں جن کو کچھ تاریخ دان چار لاکھ سال پہلے کہ لکھتے ہیں اگر اتنے پرانے نا بھی ہوں تو یہ دس ہزار سال سے پہلے کہ ہیں قریب ہی موجود تلہ گنگ کہ علاقے میرہ سے ملنے والا ایک انسانی مکمل ڈھانچہ بھی ہے جو جرمنی میں ملنے والے دس ہزار سال پہلے کہ انسانوں میں سے تھا کچھ تاریخدانوں کے مطابق یہاں افریقہ سے آنے والے دراوڑ تھے لیکن دراوڑوں کے آنے سے پہلے بھی یہ علاقہ آباد تھا یہاں آباد کون لوگ تھے اس کا کوٸی ثبوت نہیں اس علاقہ پہ بہت لمبی اور ٹھوس تحقیق ہونا بہت بہت ضروری ہے تاکہ اس کی اصل تاریخ کو سامنے لایا جاسکے جو خود میں بہت بڑی حیرت ہے اب آگے آٸیں تو 1030 میں جب محمود غزنوی یہاں آیا تو ساتھ مشہور مسلمان ساٸنسدان البیرونی کو لایا جنہوں نے یہاں قریب قلعہ نندنا میں اپنی لیب قاٸم کی زمین کا قطر ماپا اور اپنی کتاب ۔کتاب الہند۔مکمل کی محمود غزنوی کے بعد 1215 میں سلطان جلال الدین خوارزم پھر 1246 سے 1265 تک سلطان نصیر الدین محمود حکمران رہا بعد میں سلطان بلبن 1286 تک حکمران رہا یاد رہے بلبن کہ ہی دور سے یہاں دھنی نسل گھوڑوں کی افزاٸش شروع ہوٸی تھی 1398 میں امیر تیمور کہ حملے نے اس علاقے کہ ہلا کہ رکھ دیا امیر تیمور کہ جانے کہ بعد یہ علاقہ سیاسی ہلچلکا شکار رہا جب تک کہ 1519میں ظہیرالدین بابر یہاں نا آیا بابر کہ یہاں حکومت قاٸم کرنے کہ ساتھ اس علاقے میں امن کافی حد تک قاٸم ہوا جو 1707 تک مغل اقتدار تک قاٸم رہا یہ بھی یاد رہے کہ 1540 سے 1545 تک یہ پوٹھوہاری جنت سوری حکومت میں شامل رہا سوری حکومت سوری کی موت کے بعد اس کے خاندان نے 1560تک چلاٸی یاد رہے کہ جب 1739 میں نادر شاہ نے یہاں حملہ کیا تو اس علاقے میں حکومت بھاٹیہ گجروں کی تھی جنہوں نے قلعہ نندنا اپنا تخت حکومت رکھا تھا یہاں موجود شکنتلہ یونیورسٹی جو دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے کٹاس راج مندروں کی بھرمار یہاں مزید چار چاند لگاتی ہے 1776 میں سکھا شاہی دور میں قلعہ روہتاس پہ قبضہ کر لیا گیا تو سکھ حکومت اس علاقے کو بھی اپنی حکومت میں شامل کرنے میں کامیاب ہوٸی دھنی علاقے پہ قبضہ کے لیے 1801 میں رنجیت سنگھ خود یہاں آیا اس وقت ججوعہ خاندان سکھا شاہی کی بجاۓ درانیوں کہ زیر تسلط حکمرانی میں تھے پھر 1849 میں انگریز مسلط ہوا تو اس نے سکھ حکومت ختم کر دی اور اوراپنی حکومت قاٸم کی دوستو اس علاقے کی تاریخ تعریف لکھنے لگیں تو شاید کٸ سالوں میں نا نالکھ سکیں پوسٹ میں دلچسپی بناۓ رکھنے کہ لیے تحریر کو بہت مختصر کیا کیاجارہا ہے انگریز دور میں یہاں بہت سے کام ہوۓ ریلوے لاٸن سڑکیں تعلیم و صحت کہ نظام پہ بہت کام ہوا 2017 کی مردم شماری میں اس علاقے کی آبادی 16 لاکھ تھی جو اب شاید 20 لاکھ ہوگٸ ہے اس ضلع کی 68 یونین کونسلز ہیں اس ضلع کو 1985 میں ضلع کا درجہ ملا اس کے شمال میں راولپنڈی جنوب میں جنوب میں جہلم مشرق میں خوشاب اور مغرب میں میانوالی موجود ہے اس ضلع کی تین تحصیلیں ہیں چکوال کلر کہار اور چوا سیدن شاہ شامل ہیں کل رقبہ 16 لاکھ 52 ہزار ایکڑ سے زیادہ ہے سطح سمندر سے بلندی 3701 ہے پنجاب بھر سے اسلام آباد سے زیادہ تر لوگ کلرکہار سیر کہ لیے آتے ہیں قریبی ہی واقعہ ضلع خوشاب جس کی تاریخ بھی بہت بڑی ہے یہاں موجود جھیلوں قلعوں غاروں سیاحتوں جگہوں کی بہت سی پوسٹس پیج پہ موجود ہیں التماس میری تمام دوستوں سے اپیل ہے اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شیٸر کریں شاید کے حکمرانوں کو خیال آۓ وہ یہاں سیاحت کو فروغ دینے کہ لیے کام کریں یہاں کی تاریخ کو مکمل جانچیں اور پوری دنیا کو اس علاقے سمیت پوٹھوہاری جنت کا بتاٸیں باقی ملک میں بھی سیاحتی سرگرمیاں شروع کریں۔