افلاطون کی فلسفیانہ خیالات کی تاریخ - افلاطون کی فلسفیانہ خیالات کا اثر
افلاطون، جو کہ ایک مشہور یونانی فلسفی تھے، نے تقریباً اڑھائی ہزار سال قبل یہ کہا تھا کہ اگر معاشرے کے دو طبقات، یعنی تاجر طبقہ اور فوجی طبقہ، میں سے کوئی بھی طبقہ آگے بڑھ کر حکمرانی پر قبضہ کر لے تو ریاست میں تباہی ضرور آئے گی۔ ان کے خیالات آج بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور ان کی فلسفیانہ بصیرت نے سیاست، معیشت، اور معاشرتی ڈھانچے پر گہرا اثر ڈالا ہے۔
:تاجر طبقہ
افلاطون نے تاجر طبقے کی حکمرانی کے خطرات پر زور دیا تھا۔ ان کے مطابق، تاجر اپنے مفادات کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔ جب تاجر حکمرانی کرتے ہیں، تو ان کی اولین ترجیح اپنی دولت اور کاروبار کو بڑھانا ہوتی ہے۔ اس طرح کی حکمرانی میں عوامی مفاد پسِ پشت ڈال دیے جاتے ہیں اور ریاست کا نظام دولت کے ارتکاز اور خود غرضی پر مبنی ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً، عدم مساوات بڑھتی ہے، عوام میں عدم اطمینان پیدا ہوتا ہے، اور معاشرتی انتشار جنم لیتا ہے۔
:فوجی طبقہ
افلاطون نے فوجی طبقے کی حکمرانی کے نقصانات بھی بیان کیے۔ ان کے مطابق، فوجی حکمران جنگ و جدل اور طاقت کے استعمال پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ جب فوجی طبقہ حکمرانی کرتا ہے، تو ریاست میں عسکریت پسندی اور جبر کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح کی حکمرانی میں عوامی آزادیوں کو کچلا جاتا ہے، جمہوریت کا خاتمہ ہو جاتا ہے، اور انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔ فوجی حکمرانی کے نتیجے میں ریاست میں خوف و ہراس پھیلتا ہے اور عوام کا حکومت پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔
: افلاطون کی مثالی ریاست
افلاطون نے اپنی کتاب "جمہوریہ" (The Republic) میں ایک مثالی ریاست کا تصور پیش کیا تھا جس میں حکمرانی کرنے والے طبقے کو فلسفی بادشاہ (Philosopher King) کہا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک، فلسفی بادشاہ وہ ہوتا ہے جو عقل و دانش، اخلاقیات اور انصاف پر مبنی فیصلے کرتا ہے۔ وہ نہ تو تاجر کی طرح دولت کی ہوس رکھتا ہے اور نہ ہی فوجی کی طرح طاقت کی۔ فلسفی بادشاہ عوامی مفاد کو اولین ترجیح دیتا ہے اور معاشرتی انصاف کو فروغ دیتا ہے۔
: موجودہ دور کے تناظر میں
افلاطون کی یہ پیشگوئی آج کے دور میں بھی درست ثابت ہوتی ہے۔ کئی ممالک میں جہاں تاجر طبقہ یا فوجی طبقہ حکمرانی کر رہا ہے، وہاں معاشرتی عدم مساوات، بدعنوانی، جبر اور عوامی عدم اطمینان جیسے مسائل دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان حالات میں افلاطون کے خیالات کی روشنی میں ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حکمرانی کا اصل مقصد عوامی خدمت اور انصاف کا قیام ہونا چاہیے، نہ کہ ذاتی مفادات کا حصول۔
افلاطون کے الفاظ آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ ان کی بصیرت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ حکمرانی کے لئے ایسے افراد کی ضرورت ہے جو عقل و دانش، انصاف اور عوامی خدمت کے اصولوں پر مبنی ہوں۔ جب تک حکمرانی ایسے اصولوں پر مبنی نہیں ہوگی، تب تک ریاست میں حقیقی ترقی اور خوشحالی ممکن نہیں