میرا شوہر باہر ملک نوکری کرتا تھا۔ میں تین ماہ کی حاملہ تھی مگر شوہر میرے لیے جو بھی خرچہ ۔۔۔

Story Or Poetry


میرا شوہر باہر مُلک تھا اور میرے ساتھ ایک آدمی ظلم کرتا تھا۔

میرا شوہر باہر مُلک تھا

السلام علیکم میرا شوہر باہر ملک نوکری کرتا تھا۔ میں تین ماہ کی حاملہ تھی مگر شوہر میرے لیے جو بھی خرچہ بھیجتا میرا جیٹ اور ساتھ سب مجھ سے چھین لیتے یوں ہی کمزوری کی وجہ سے میرا بچہ ضائع ہوگیا۔ ساس نے مجھ پر الزام۔ لگایا کہ میں نے خود جان بوجھ کر اپنے بچے کو مارا ہے اور آدھی رات کو دھکے مار کر گھر سے باہر نکال دیا۔ میں سڑک کے کنارے بیٹھی رو رہی تبھی اچانک سے ایک عورت مجھے اپنے ساتھ لیے جھگیوں میں چلی آئی۔ جو ہی میں نے اندر قدم رکھا تو یہ دیکھ میری چیخ نکل گئی کہ وہاں۔وہ میرا پردیسی شوہر۔ تو آگ کا سر بری طرح چکرایا تھا اور وہ زمین پر گر پڑی تھی۔ اور اس کے بعد اسے کچھ ہوش نہ رہا تھا اور جب ہوش آیا تو اس کی تو نیا لوٹ گئی تھی۔
 اس کے جینے کی واحد وجہ بھی اس سے چھن گئی تھی جس وجہ سے وہ جیسے ویسے سب ظلم برداشت کر رہی تھی۔ ہر ستم کا بوجھ۔آ رہی تھی وہ ننھی سی جان بھی اسے چھوڑ کر جا چکی تھی۔ وہ جو تین مہینے کی حاملہ تھی اسے ہوش میں آتے ہی یہ خبر ملی۔ اس کا بچہ ہمیشہ کے لیے اس سے بچھڑ گیا۔ ہے۔ اس کا مس گیراج ہو گیا تھا۔ بچہ ضائع ہونے کی خبر سنتے ہی وہ اس قدر بری طرح روئی کے ایک دفعہ پھر۔یہ ہوش ہوگئے اور جب اسے پھر سے ہوش آیا تب اس کے پاس ہونے کو کچھ نہیں بچا تھا۔ کتنی ہی دیر وہ اپنی بربادی پر آنسو بہاتی رہی تھی لیکن نہ ہی کوئی آنسو کو پہنچنے والا تھا اور نہ ہی کسی کو اس کی کوئی پرواہ تھی، اس کے سراہانے کھڑی، سانس نے۔ایک نفرت بھری نظر اس پر ڈالی تھی اور ایسی بات کہی تھی کہ اس کی روح تک کانپ اٹھی۔ اس کی ساس کہنے لگی، مجھے تو پہلے ہی پتا تھا کہ تو بچہ پیدا ہی نہیں کرنا چاہتی۔ تھی۔ یہ بچہ تیرے پیروں میں زنجیر تھا۔ تیری آزادی ختم ہورہی تھی اس لیے تو نے اسے خود مار ڈالا ہے۔
مجھے اچھی طرح تیرے کارناموں کا عزم ہے۔کے پیچھے جو حرکتیں کرتی ہے اس کی بھی مجھے خوب خبر ہے۔ تجھے کیا لگتا ہے کہ کیا میں اتنی بے وقوف ہوں کہ میں نہیں سمجھ پاؤں گی کہ اچھی خاصی ہٹی کٹی عورت کا بچہ اچانک کیسے ضائع ہوگیا؟ جمال نے تو پہلے ہی مجھے خبردار کر دیا تھا کہ تو بہت جلد ایسا ہی کچھ کرے گی۔میں ہی بے وقوف تھی جو یہ سمجھ رہی تھی کہ ایک عورت ہوگا تو اپنی اولاد کے ساتھ کوئی ایسا نہیں کرے گی مگر میرا بڑا بیٹا صحیح کہتا ہے تو جیسی بد کردار عورت اس دنیا میں کوئی اور ہو ہی نہیں۔ سانس نے ایسی تھی کی نگاہوں سے دعا کو دیکھا تھا۔ کہ وہ کہاں۔پیتی اور پھر اس نے روتے ہوئے اپنی صفائیاں دی تھیں کہ اس نے کچھ نہیں کیا، اسے نہیں معلوم کہ بچہ کس طرح ضائع ہوا ہے؟ وہ تو صبح سے ہی گھر کے کاموں میں مصروف تھی۔ یہ اچانک ہی چکرا کر گری اور پھر یہ سب کچھ ہوگیا۔ لیکن اس کی ظالم سانس کو اس کی بات پر یقین نہ آیا۔ کہنے لگے کہنے لگی کہ اپنی۔اشکوں سے ملنے کے لیے تجھے جو کھلی چھوٹ چاہیے تھی اس لیے ہی تو نے اس بچے کو مار ڈالا ہے اور پھر ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود دعا کی ساس نے زبردستی ہسپتال سے اس کی چھٹی کروائی اور اسے رکشے میں ڈال کر بری طرح گھر لے کر آج سارے رستے جھٹکے۔کی وجہ سے دعا کے پیٹ میں شدید درد ہو رہا تھا۔ اسے کمزوری سے اب بھی چکر آرہے تھے۔ لیکن دعا کی ساس نے اس پر ذرا بھی طرز نہ کھایا اور اسے کھینچ کر گھر کے اندر پھینک دیا اور کہنے لگی۔ اپنا ضروری سامان اٹھاؤ اور اب یہاں سے چلتی بنو۔میری آنکھوں میں تم دھول، جھونک چکی ہو، اب میں مزید پاگل نہیں بنوں گی۔ یہ سننا تھا کہ دعا کے قدم وتھلے سے زمین نکل گئی۔ وہ اپنے احساس کے پیروں میں بیٹھ کر، پیروں کو پکڑ کر رونے لگی اور فریاد کرنے لگی۔ یہ میرے سر سے یہ چھت نہ چھینئے۔ یہ میرے شوہر کا گھر ہے مجھے یہاں عزت کی زندگی۔باآسانی نے لیکن دعا کی سانس کو ذرا رحم نہ آیا۔ ان کے بڑے بیٹے جمال نے آج تک جو زہر ان کے کانوں میں کھولا تھا آج وہ ان کی زبان سے نکل رہا تھا۔ دراصل دعا کا جیٹھ جمال شروع سے ہی دعا کے خلاف وہی ہمیشہ دعا کو بد کردار ثابت کرنے پر تلہ رہتا تھا جبکہ اس کے اس کی اپنی نظر دعا پر خراب تھی۔
خراب بھائی کے پردیس جاتے ہی جان بوجھ کر اس نے دعا کے خلاف ایسا جال بچھایا تھا کہ وہ خود گٹیا حرکتیں کرتا اور الزام دعا پر آ جاتا تھا وہ کسی نہ کسی بہانے سے دعا کو چھت پر بلا لیتا۔ اس کے ساتھ بے حیائی کی باتیں کرتا اور پھر بعد میں ساس کو کہتا کہ دعا گلی کے لڑکوں سے چکر چلاتی ہے۔
وہ چھت پر جاتی ہے۔ دعا ہر طرف سے بری طرح پھنسی ہوئی تھی اور ساتھ نہیں تھا۔ اس لیے مجبوراً اسے سانس اور جیت کے ساتھ رہنا تھا۔ لیکن اسے یہ نہیں پتا تھا کہ وہ دونوں مل کر اس سے یہ چھت چھین ہی لیں گے اور اسے یوں بے سہارا کر دیں۔ گے۔ دعا کی ساس نے دیکھتے ہی دیکھتے ہیں اسے دھک کے مار مار کر گھر سے گھر سے بار نکال دیا۔ تھا۔ وہ پیٹ کے درد سے تڑپتی بھلکتی سڑک کے کنارے آ بیٹھی تھیں۔ سوائے آنسو بہانے کے اس کے پاس کوئی اور چارہ نہیں۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !