khilafat usmania map -sultan suleiman of khilafat usmania
الجزائر، تیونس، لیبیا، مصر، سعودی عرب، یمن، کویت، عراق، اردن، اسرائیل فلسطین، لبنان، شام، ترکی، یونان، بلغاریہ، البانیہ، رومانیہ، مقدونیہ، سربیا، کوسوو اور ہنگری کبھی ایک سلطنت علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ اور اس سلطنت کو سلطنت عثمانیہ کہتے تھے۔ دا آٹومن ایمپائر۔ تین براعظموں اور چھے صدیوں پر پھیلی یہ سلطنت کیسے وجود میں آئی، کیسے دنیا کی سپر پاور بنی اور پھر کیسے یوں تتر بتر ہوئی کہ آج اس کی داستان تلاش کرنا بھی ایک کام ہے۔ میں ہوں فیصل سیریز سلطنت عثمانیہ میں ہم آپ کو اسی عظیم الشان سلطنت کی داستان کا پہلا حصہ ’’خوابوں کے بیج‘‘ دکھائیں گے۔ یہ آج کا ترکی ہے لیکن ہزار سال پہلے اس علاقے کو اناطولیہ کہتے تھے۔ اس کے مشرق میں یہاں سلجوقی سلطنت کی حکومت تھی۔ یہ سلجوق ترک نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ جبکہ یہ سارا علاقہ رومیوں کے قبضے میں تھا۔ رومن ایمپائر اناطولیہ اور یورپ کے مشرقی علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی جس کا مرکز یہ قلعہ تھا۔ جسے قسطنطنیہ یا کانسٹائن ٹینوپول کہتے تھے۔ لیکن آج اسے زمانہ استنبول کے نام سے جانتا ہے۔ اس رومی سلطنت کو بازینٹائین ایمپائر یا ایسٹرن رومن ایمپائر کہتے تھے۔ اسی خطے اناطولیہ میں یہاں ایک بہت ہی خوبصورت جھیل ہے۔ اس لیک وان کہتے ہیں۔ کہتےہیں اس جھیل میں ایک مگر مچھ اور مچھلی کی ملی جلی شکل والا مونسٹر رہتا ہے۔ معلوم نہیں رہتا ہے یا نہیں، لیکن جھیل کا نظارہ کیا ہی خوبصورت ہے۔ اس کے کنارے پر یہ خوبصورت تاریخی چرچ دیکھئے جس کی دیواروں پر بائبل کی ایک مقدس داستان ترشی ہوئی ہے۔ اسی جھیل کے اس کنارے پر ایک ہزار سال پہلے بظاہر مختصر لیکن تاریخ کا دھارا موڑ دینے والی جنگ ہوئی تھی۔ اُسی تاریخی جنگ کی یاد میں یہاں ہر سال اگست میں ایک شاندار تقریب ہوتی ہے۔ یہ تقریب اتنی اہم ہوتی ہے کہ ترک صدر بھی اس میں شرکت کرتے ہیں۔ تقریب میں ایک کھیل پیش کیا جاتا ہے جس میں ترک گھڑ سوار، لگامیں پکڑے بغیر گھوڑا دوڑاتے ہیں اور بھاگتے گھوڑے سے، گردن موڑ کر پیچھے کی جانب تیر چلاتے اور نشانہ لگاتے ہیں۔ یہ آج ایک کھیل ہے لیکن نو سو اڑتالیس سال پہلے ان کے آباؤ اجداد نے یہی سب کر کے رومیوں سے یہ سارا علاقہ چھین لیا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ 11ویں صدی عیسوی میں اناطولیہ پر کنٹرول کیلئے سلجوقیوں اور رومیوں میں جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ لیکن بنیادی طور پر یہ علاقہ رومی سطنت بازنطائن ایمپائر کا حصہ تھا۔ رومن سلطنت نے ترکوں کو روکنے کیلئے اپنی سرحد کے ساتھ ساتھ قلعوں کی ایک طویل قطار بنا رکھی تھی، جو سرحدی چوکیوں کا کام دیتی تھی۔ اور ان قلعوں میں موجود فوجی دستے حملہ آوروں کا مقابلہ کرتے تھے۔ لیکن یہ حملے اتنے بڑھ گئے تھے کہ انہیں روکنا اب سرحدی قلعوں کے بس کی بات نہیں رہی تھی۔ چنانچہ رومی شہنشاہ رومانوس نے ترک خطرے کو مستقل ختم کرنے کیلئے ایک بڑی فوج جمع کی۔ جس کی تعداد ایک لاکھ سے کچھ ذیادہ تھی۔ جب رومانوس سلجوقیوں کے خلاف جنگ کی تیاری کر رہا تھا اس وقت سلجوقی ترکوں کا سب سے بڑا سلطان الپ ارسلان مصر کی فاطمی خلافت سے جنگ میں الجھا ہوا تھا۔ فاطمی خلافت کے کنٹرول میں بیت المقدس، شام کے ساحلی علاقے تھے اور الپ ارسلان یہ علاقے چھیننا چاہتا تھا۔ لیکن ظاہر ہے الپ ارسلان ایک وقت میں دو، دو محاذوں پر نہیں لڑ سکتا تھا۔ اس نے رومن شہنشاہ کو پیغام بھیجا کہ اگر رومانوس جنگ نہ کرے تو ترک اس کے علاقوں پر حملے بند کر دیں گے۔ اور بدلے میں رومن سرحدی فوج بھی ترک علاقوں میں چھاپہ مار کاروائیاں نہیں کرے گی۔ رومانوس مان تو جاتا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ دونوں سلطنتوں کی درمیانی سرحد غیر واضح تھی۔ اور سرحدی علاقوں پر دونوں کا بہت زیادہ کنٹرول بھی کچھ ذیادہ نہیں تھا۔ چنانچہ یہ معاہدہ طے نہیں ہو سکا۔ اور رومی شہنشاہ نے آگے کی طرف سلجوقی سلطنت کے بارڈر کی طرف پیشقدمی جاری رکھی۔ ایک ہزار اکہتر میں رومانوس اپنے بڑے لشکر کے ساتھ اناطولیہ میں ملازکرد کے مقام پر پہنچ چکا تھا۔ یہاں سے سلجوقی سلطنت اب زیادہ دور نہیں تھی۔ چنانچہ الپ ارسلان کے پاس بھی ایک محاذ چھوڑنے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔
اس نے فاطمیوں سے جنگ روک دی اور رومی لشکر سے مقابلے کی تیاری کے لیے اپنے مرکز ایران آ گیا۔ یہاں اس نے تیس ہزار کا لشکر تیار کیا۔ جس میں ماہر قسم کے گھڑ سوار اور تیر انداز شامل تھے۔ الپ ارسلان ایک لمبے راستے سے جھیل وان کے کنارے پہنچا۔ اور اس نے رومی فوج کے ایک بڑے حصے کو پیچھے سے جا لیا۔ یہ ایک سرپرائز اٹیک تھا۔ جس سے رومی فوج سنبھل نہ سکی۔ رومیوں پر دوسری قیامت یہ گزری کہ ان کی فوج میں جو ترک سپاہی کرائے کے سپاہی بن کر لڑ رہے تھے وہ عین وقت پر الپ ارسلان کی فوج سے جا ملے۔ جس سے رومیوں میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس فرار کی وجہ سے رومی فوج کے اُس حصے کے حوصلے بھی پست ہو گئے جس کی قیادت بازنطینی شہنشاہ رومانوس کر رہا تھا۔ جب اس حصے سے الپ ارسلان کی باقاعدہ جنگ شروع ہوئی تو یہ افواہ پھیل گئی کہ رومن شہنشاہ مارا گیا ہے۔ اس افواہ نے عیسائیوں کے بڑے لشکر کی کمر توڑ دی۔ فوج کچھ دیر تک غیر منظم ہو کر لڑنے کے بعد پسپا ہونے لگی۔ رومی جو بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ آئے تھے صرف چوبیس گھنٹوں میں جنگ ہار چکے تھے۔ لیکن جو ہونے والا تھا یہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا۔ جنگ کے خاتمے پر ایک عام سلجوقی سپاہی سلطان الپ ارسلان کے سامنے آیا۔