شاہ عبداللطیف بھٹائی کے بارے میں تحریر

Story Or Poetry


شاہ عبداللطیف بھٹائی کی 

 زندگی کے بارے میں تحریر  

شاہ عبداللطیف بھٹائی کے بارے میں تحریر


حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رح وادی مہران، سر زمین سندھ ، وہ خطہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے تبلیغ دین کے لیے بہت سے صوفیائے کرام کو بھیجا، جنھوں نے توحید ورسالت کے نور سے اس دھرتی کو منور کیا۔ ایسی ہی روحانی ہستیوں میں ایک با وقار صوفی، با صفا درویش، قلندرانہ مزاج کے حامل، عشق الٰہی میں فنا، قادر الکلام شاعر حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی ہیں۔ شاہ عبد اللطیف بھٹائی 14 صفر 1102ھ کو ضلع مٹیاری کی تحصیل ہالا میں واقع ہالا حویلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آبا واجداد آٹھویں صدی ہجری کے آخر میں افغانستان کے صوبے ہرات سے بالا (سندھ) میں آئے تھے۔ آپ کے والد شاہ حبیب ایک دین دار بزرگ اور ولی تھے۔ شاہ عبد اللطیف بھٹائی نے ابتدائی تعلیم نور محمد سے اور دینی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔        چند سال بعد آپ کے والد نے ہالا چھوڑ کر کوٹری میں سکونت اختیار کر لی، کوٹری میں مرزا مغل بیگ نے اپنی بیمار بیٹی کی دعا کے لیے آپ کے والد کو بلوایا، لیکن آپ کے والد کی طبیعت ناساز تھی جس کی وجہ سے سیدحبیب نے شاہ لطیف کو بھیج دیا، شاہ عبد اللطیف ” ، مرزا مغل بیگ کی بیٹی سے اتنے متاثر ہوئے کہ آپ نے ان کا رشتہ مانگ لیا لیکن مرزا نے صاف انکار کر دیا۔ شاہ عبد اللطیف اس انکار پر بہت دل برداشتہ ہوئے اور فقرا کی صحبت میں رہنے لگے۔ اس عمل نے شاہ عبد اللطیف ” کو جو گیوں اور سنیاسیوں سے متنفر کر دیا اور وہ ٹھٹہ چلے گئے ٹھٹہ میں مخدوم محمد معین رح کی رہنمائی اور صحبت سے شاہ صاحب میں عبادت، ریاضت اور خدمت کاجذبہ پیدا ہوا اور دین و دنیا کا علم حاصل کرنے کا شوق بیدار ہوا۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ جب شاہ عبد اللطیف ایک عالم صوفی شاعر اور کردار و عمل میں منفرد شخصیت کے روپ میں واپس کوٹری گئے۔ آپ کی عدم موجودگی میں مرزا مغل بیگ کے گھر پر حملہ ہوا جس میں وہ مارے گئے ، مرزا کی بیوہ احساس ندامت لیے شاہ عبد اللطیف کے پاس حاضر ہوئیں۔ انھوں نے انھیں بہت عزت دی اور مرزا کی بیٹی کو اپنے نکاح میں لے لیا۔ یوں اللہ تعالیٰ نے محبت، تعلیم و خدمت کا صلہ ان کی دلی خواہش کی تکمیل کی صورت میں دیا۔ شادی کے بعد شاہ عبد اللطیف ” نے ایک غیر آباد ٹیلے کو اپنا مسکن بنایا۔ سندھی زبان میں ٹیلے کو بھٹ کہا جاتا ہے۔ اور آہستہ آہستہ یہ بھٹ ایک بستی بن گئی جسے لوگ آج بھٹ شاہ کہتے ہیں۔

شاہ عبد اللطیف ایک عظیم صوفی شاعر تھے۔ آپ نے صوفیوں سے فیض حاصل کیا اور اس فیض کو اپنی فطری شعر گوئی کی قوت و صلاحیت کی بنا پر اشعار میں ڈھالا، چوں کہ  آپ عشق مجازی سے عشق حقیقی کی طرف پہنچے تھے۔ اس لیے آپ کے کلام میں بھر پور سوزوگداز ہے۔ موسیقیت کا عنصر بھی آپ کی شخصیت میں موجود تھا اور اپنے اس مشغلے کی بنا پر آلات موسیقی میں طنبورہ ان ہی کی ایجاد ہے۔ غرض کہ آپ کی شاعری میں رمز و ایما، سوز و گداز، صوفیانہ رنگ اور شعریت و موسیقیت سب ہی کچھ موجود ہے۔

شاہ عبد اللطیف کی شاعری شاہ جو رسالو کے نام سے جمع کی گئی اس کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوئے اردو میں شیخ ایاز اور الیاس عشقی نے کتابی صورت میں جب کہ آفاق صدیقی، رشید احمد لاشاری اور دیگر نے جزوی تراجم کیے۔ جرمن اسکالر مسز این میری شمل نے جرمن زبان میں ترجمہ کیا اور یورپ میں متعارف کرایا، آپ کا کلام کئی رومانی داستانوں پر مشتمل ہے، جو بہت عام ہیں، یہ ان جذبات سے بحث کرتی ہیں جو ہجر و فراق کے عالم میں پیدا ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت پر یقین کامل کو مضبوط بناتے ہیں۔  شاہ صاحب کی شخصیت میں خوش مزاجی کوٹ کوٹ کر بھری تھی آپ کی شخصیت ہر پہلو سے ایک صوفی شاعر، متقی، عالم دین اور کردار و عمل میں ایک منفر د عظیم انسان کا پیکر تھی۔

 شاہ بھٹائی رح زندگی کا بیش تر وقت تنہائی، عبادت اور ریاضت میں گزارا کرتے تھے، بالآخر اللہ تعالیٰ کا یہ برگزیدہ بندہ لوگوں کو اپنے علم سے فیض یاب کر کے 14 صفر 1165ھ کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر کے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ انھیں بھٹ شاہ ہی میں دفن کیا گیا، 1167ھ میں سندھ کے حاکم میاں غلام شاہ کلھوڑو نے شاہ صاحب کے مزار پر ایک دیدہ زیب مقبرہ بنوایا یہ مزار قدیم فن تعمیر کا شاہکار ہے۔

  شاہ عبد اللطیف کی شخصیت سے ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ انسان دنیا میں سب کچھ حاصل کرے اور اس کے بدلے اپنے کردار کو کھو دے تو سمجھو کہ اس نے سب کچھ کھو دیا۔ آج ہمیں شاہ صاحب کی تعلیمات اور پیغام کو عام فہم اور آسان زبان میں عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے، کیوں کہ ماحول و معاشرے کی تاریکیوں کو دور کرنے کی روشنی ہمیں شاہ صاحب ” کے کلام سے ہی ملتی ہے۔



 





#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !